Skip to main content

Posts

Showing posts from June, 2021

آسان لفظوں میں

    بچپن   میں   ایک   عینک   ملا   کرتی   تھی۔   ساتھ   میں   کچھ   کارڈز   ملتے   تھے۔   عینک   میں   دو   رنگ   ہوتے   تھے۔   لال   اور   نیلا۔   جب   عینک   لگا   کر کارڈز   پر   نظر   ڈالتے   تھے   تو   جیسے   سب   کچھ   زندہ   اور   جاندار   نظر   آنے   لگتا   تھا۔   ہر   عینک   ایسے   ہی   انسان   کی   دنیا   کو   جاندار   بناتی   ہے۔   دھوپ   میں   کالے   شیشے   آنکھوں   کو   محفوظ   رکھتے   ہیں   پر   جب   دھوپ   نہیں   ہوتی   تو   وہی   شیشے   ہر   شے   کو   اندھیرے   میں   ڈبو   دیتے   ہیں۔   دیکھنے   والے   کیا   دیکھنا   چاہتے   ہیں   اس   اختیار   کا   استعمال   وہ   اپنی   عینک   سے   کرتے   ہیں۔   تاریخ   ایسی   ہی   دور   اندیش   اور   حساس   عینکوں سے   دیکھی   گئی   اور   دیکھنے   والوں   نے   جب   اپنی   نظر   کو   الفاظ   میں   قید   کیا   تو   گویا   حقیقت   کے   ایک   پہلو   کو   قید   کیا۔   جب   مارکسسٹ   سارے   مسائل   کی   جڑ     انسانوں   کے   غیر   مساوی   نظام   تقسیم   کو   گردانتے   ہیں   تو   وہ   بھی   محض   ایک   پہلو   کی   بات   کرتے ہیں۔   جب     س

The secular conscious

This is such an interesting term. I came across it while doing a comparative study between the secular and the islamic paradigm. Having worked closely with a few religious organisations my understanding of this term was not very different from the researcher I read, the only difference being that she was questioning the secular conscious because of its non-committant attitude towards principles and permanence while I questioned the same in those who claim to be religious. The secular conscious or mindset then is something not limited to the apparently liberal . Its something which plagues all. Its best defined with this word 'non-committance'. Not commiting to boundaries does not make a system or people more flexible. It actually makes them more rigid. Those who do not commit to a path, do not plan to reach anywhere. Those who do not have anywhere to go often create trouble for the rest. Saima Sher Fazal

ٓآسان لفظوں میں:

۲۰۱۵ میں تُرکی کے ایک ساحل کنارے  دوسالہ بچے کی لاش اوندھے منہ پڑی ہوئی ملی۔ یہ بچہ  شام سے ٓانے والی ایک مہاجر بردار کشتی سے گر کر ڈوب گیا تھا اور پانی کی لہروں نے اسے ساحل سمندر لا پہنچایا۔ اُس بچے کی اوندھی پڑی لاش کی  تصویر کچھ ہی گھنٹوں میں ٓاگ کی طرح سوشل میڈیا پر پھیل گئی۔ ۲۰۱۵ میں میرا چھوٹا بیٹا بھی تقریبا اتنی ہی عمر کا تھا۔ میرے لیے وہ تصویر بہت تکلیف دہ تھی۔ اُس کی قمیض کا رنگ اور اُس کا ننھا سا جسم آنکھیں بند کرنے پر بھی نظروں سے ہٹتا نا تھا۔میرے دل کی یہ کیفیت اُس کے بارے میں  لکھتے ہوئے پھر سے بالکل ویسی ہی ہوگئی ہے۔ یہ تعلق دل کا ہے۔ انسانی نفسيات میں قلب اور معنی  اکژ ایک ہوجاتے ہیں۔ انسان کی خوشی، غمی، فہم اور بصیرت تمام دراصل دل ہی کے معنوں میں شامل ہے۔ تاریخ کے سبق  ضروری تو ہیں لیکن کافی نہیں۔ ہر واقعے کو اگر تاریخ کے پلڑوں میں تولا جائے تو انسان کے لیے عدل کرنا ناممکن ہوجائے۔ ٓافاقی پیمانے تاریخ کی قید سے ٓازاد ہوتے ہیں۔قدرت جب چاہے وقت اور زمانے کی مناسبت سے عدل کرنے والوں کو مناسب ہتھیاروں سے لیس کردیتی ہے۔ اس کے لیے صرف سچ بولنے اور سچ کا سامنا کرنے کی جرات شر

On Cue:

On Cue:  Reality and illusion .............................................. When the Pharoah challenged Prophet Moses (AS) to a contest of power with his best magicians Allah actually revealed to humanity the reality of deception and the fallibility of human vision and perception.  He assured Moses (AS): (20:68) We said to him: "Have no fear; for it is you who will prevail. (20:69) And throw down what is in your right hand; it will swallow up all that they have wrought. They have wrought only a magician's stratagem.  A magician cannot come to any good, come whence he may. ” In the dicipline of psychology there is a phenemenon labelled as the “phi   phenomenon” or simply put a visual closure. It explains the natural response of human vision to a visual stimuli. The response lasts longer than the stimulus thus extending the actual experience. The co ordinated movment of lights on a dance floor or the continuous flicker of bulbs in a string of decoration lights often gives us th

On Cue

  ------------------------------ Pakistan is on an important cusp in its geo-political timeline. Its geographical proximity to Afghanistan and China have made it a happening place amidst covid. The US interest in maintaining peace in the region and our continuing co operation in granting them Pakistani airspace comes at a time of international importance. Pakistan’s involvment in raising the Palestinian cause at the UN general assembly is being touted as a sixer for the governing party inside Pakistan. Not only this but the glare of the projects under the belt and road intiative with china and now very recently the inaugration of the Kanuup nuclear plant in Karachi have blinded the party supporters from its odd numbness at the plight of ughihurs in our neighboring country. Qureshi’s silence in the CNN interview might have been justified for an international audience but what about the Pakistani citizens who are just as concerned about the atrocities in Xinjiang as they are about Palest

آسان لفظوں میں:

  ——————————— توازن عدل کی حسی صورت ہے۔ دیکھنا حس ہے۔ بلاوجہ دیکھنا بداخلاقی اور ان دیکھے کو پالینا بصیرت۔ بداخلاقی بہرحال اوزان کی ڈھلتی شکل ہے۔ اور اس کے ساتھ جتنی مرضی عبادت نتھی کردی جائے بہرحال ظلم ظلم ہی رہے گا اور عبادت کا لبادہ اُس کو عدل نہیں بنا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسلمان اُمت میں دینی مسالک پر مبنی سیاسی گروہ بندیاں دیکھتے ہیں۔ “ہم” اور “وہ” کی یہ لکیر بھی “ہم” اور “وہ” نے باہم رضامندی سے کھینچی تاکہ طاقت کے بٹوارے میں اپنا حصہ چھین کر بھی حاصل کرنا جائز ہوجائے۔ رفاہ یونیورسٹی میں کام کرتے ہوئے ایک انتہائی دلچسپ فریم ورک پر کام کرنے کا ادھورا موقع ملا۔ اُس فریم ورک کا مقصد آنے والے ہر طالب علم کی دینی ، علمی اہلیت کو جانچ کر “صیح مسلمان ” بننے کا رخ دینا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ کام چھوڑنے کے بعد سیکھا کہ نبیٌ نے صیح کا پتا اس علم سے دیا کہ غلط کیا ہے۔ حدیث پوری یاد نہیں۔ مفہوم کچھ یوں ہے (حوالے کے لئے سیرت النبی کا فضائل اخلاق کے باب میں صداقت والا حصہ پڑھ لیں): مومن سب کچھ ہوسکتا ہے پر جھوٹا نہیں ہوسکتا! جھوٹ بولنا نا صرف عدم توازن ہے۔ جھوٹ بولنا زوال کی دلیل ہے۔ اب پتا نہ

On Cue:

  ——————— In a discussion with an old friend lamenting at the media depictions of reality and how they further tend to shape our reality and vice versa. We started discussing popular entertainment media. She was of the view that movies depict a nation’s mindset. The height of achievement shown in our movies is usually to overcome all possible hurdles in order to win over a girl and achieve a lasting relationship in the face of “zaalim Zamana”! That’s why this is the ultimate goal of our nation nowadays be they young or old, religious or otherwise. While their western counterparts devoid of the “zaalim Zamaana” with easy access to women tend to focus on finding ways to ‘live more’ or ‘live better’. Sometimes in search of extra sensory powers. Sometimes in search of new places to live. In short to achieve permanence in a temporary world. That’s why they are focused on creating medicines , technology and arms to try it out all in wars inflicted upon other countries. The whole world is

ٓآسان لفظوں میں:

  —————————————— فکر کا تخم بھی بارآور ہونے کے لئے قرار مانگتا ہے۔ قرار آجائے تو وجود مل جاتا ہے۔ فکر کو قرار عمل سے آتا ہے۔ آج کی نوجوان نسل فہم کی سیڑھیاں جس تیزی سے پار کر رہی ہے عمل کو وہاں تک لاتے عمر لگ جاتی ہے۔ اسی کمی یا گیپ کو پُر کرنے میں مدد گار ڈھانچے وضع کرنے پڑیں گے۔ جو اِس فہم کو بریک لگا کر عمل کی چابی دیں سکیں۔ دکھ اور تکلیف اس بات کا ہے کہ جدید معیشت نے انسان کو بھی ریسروس گردانا تو فہم بھی کموڈیٹی یعنی اشیاء صرف میں شامل ہوگیا ۔جب ایسے ہوا تو محض فہم کی خرید و فروخت کے لئے تھنک ٹینکس وجود میں آگئے جہاں انسان کی سوچ اور فہم کو خرید کر آل رائٹس ریزرو کردیا گیا۔ اور اُس کو بھی معیشت کے لئے مخصوص کرلیا گیا۔ محبت اور قربانی پر مبنی ہر سوچ اور فہم بیکار ہوگیا۔ پھر جب تھینک ٹینکس نے مل کر اونچا سوچنا شروع کیا تو پرانے فہم پر عمل کی کمی تو اپنی جگہ رہی اور بجائے اس کے کہ اُس عمل سے کچھ نیا پھوٹتا اُس کی جگہ کچھ نیا سوچنے کے جنون نے پرانا بھی گنوا دیا۔ عمل کی چابی عجز مانگتی ہے۔ صبر مانگتی ہے ۔ توکل و عمر مانگتی ہے۔ یہ سب نیا پن بھی قرار مانگتا ہے اور قرار ہی مزید حرکت کا

ON CUE!

  ———————— The US Presidents have never minced any words when defending their country’s or its allies war crimes. Biden’s consistent support of Israeli ‘security tactics’ comes from the same mindset which justifies civilian deaths as “collateral damage”. It’s futile to feel outraged at such an expression coming out of the US as it’s not something new or un expected. What’s thoroughly disheartening though are the ridiculous requests Arab countries are making to the west to stop Israel while they sit and see oppression just next door with muted souls. Death for the dying is peace at last but the living dead won’t find any peace in their palaces or oil till they do justice to the Palestinian Muslims. Such cowardice fuels instability in the region.Destruction of the AP and Al- Jazeerah offices is a clear indication that International organisations like the UN have again failed the Muslim World. Apparently laws don’t apply to all! Saima Sher Fazal #Palestine

آسان لفظوں میں:

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عید پر ایسا لگا کہ جیسے بیانوں کا طوفان ٓاگیا ہو۔ ایک ٓاگ غزا میں لگی ۔ ایک ہمارے سوشل میڈیا مجاھدین کو۔غزا میں جانیں گئیں۔ سوشل میڈیا پر احساس! ٖفلسطین پر اصلی بم گرے اور مسلمان اُمت کے بہادر لیڈران ٹویٹر پر فلسطین کا ساتھ دے رہے ہیں۔ "تم لڑو ہم دعا گو ہیں"۔ پچھلی کتنی دہائیوں سے یہی کیفیت ہے او ٓئی سی کی غیرت کی۔ صیحح لطیفہ بیان کیا ایک دوست نے او ٓائی سی صرف تب ہی لڑے گی اسرائیل سے جب وہ مسلمان ہوجائیں گے۔ جو مزہ ا آپس میں لڑنے کا ہے وہ غیروں سے کہاں!! سوشل میڈیا مجاہدین احتجاج ریکارڈ کرانے کے علاوہ اور کیا کیا کرسکتے ہیں جس سے فلسطینی مسلمانوں کی مدد ہوسکے: ۔ اپنی زندگی میں سچ کو فروغ دیں۔ سچ انسان کو بہادر بناتا ہے۔ سچ بولنے سے قومیں مظبوط ہوتیں ہیں۔ اپنے ٓاپ سے سچ بولیں ۔ اپنے خون کے رشتوں سے سچ بولیں۔ اگر سچ کی چوٹ خود پر آئے تب بھی سچ ہی بولیں۔ ۔ یہ ممكن ہوجائے تو پھر استغفار کریں۔ ایسے مسلمانوں کی اللہ مدد کرتا ہے اور پھر وہ احتجاج کے علاوہ بھی کچھ کر پاتے ہیں۔ صائمہ شیر فضل

Ramadan reflections 03:

  The blessed month of Ramadan is going to end soon. Taking along with it the tranquility and healing it brought to a deeply scarred humanity. Scarred by the endless reign of oppression inflicted upon it from within. The last ashra was yet again marred with Israeli attacks along the Gaza Strip, third year in a row! Our PM on a holy visit to the Harmain. Special guest to the the Prince. Our Army chief deciding to help now in the Afghan peace process. The Kingdom of Saudi Arabia hosting talks with Qatar and Iran for better bilateral ties. All this happening in grand palaces while bombing rocks Gaza, war blockades starve the Yemnis. Muslim refugees wait stranded on European borders ,Kashmir is still “occupied” and the US “monitors the violence”* in Palestinian Territories from afar. *(actual statement from a US spokes person) To the powerful: You will not always have this power. Injustice done on your land will be brought upon you soon. Those who die because of your negligence are

آسان لفظوں میں:

  محبت اور خدمت نصیحت کی جگہ بناتی ہیں۔ بغیر محبت کے نصیحت اثر قبول نہیں کرتی اور یہ حقیت آفاقی ہے۔ وائرلیس دور میں برقی تعلق بڑھ گیا ہے اور حقیقی تعلق بکھر رہا ہے۔ برقی تعلقات میں اعتبار بھی سستا ہو جاتا ہے۔ جتنی جلدی بنتا ہے اُتنی ہی جلدی ٹوٹ جاتا ہے۔ جب انسان کا بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اُس کی پہلی ضرورت کو تعلق سے جوڑ دیا گیا۔ ماں کا لمس اور گود بن کہے جو نصیحت اُس کے اندر اُتارتی ہے وہ اعتبار اور محبت کوئی متبادل نہیں رکھتا۔ ماں بچے کو ساتھ لگا کر الگ ہونا بھی سکھاتی ہے تاکہ وہ اپنی شناخت خود کرسکے اور مکمل انسان بن جائے۔ خدمت اور محبت کا تعلق ایک ایسا گُر ہے جو صرف بہتری کا سامان ہی کرتا ہے اور اس کے پھل سے صرف ایک گھرانہ نہیں پورا معاشرہ مستفید ہوتا ہے۔ جب تربیت میں تعلق واجبی ہو تو نصیحت ندارد۔ روحانی بیداری کے لئے برقی ذرائع کا استعمال بالکل ایسے ہے جیسے بچے کے منہ میں فیڈر لگا کر اُس کو برقی جھولے میں ڈال دیا جائے۔ لوری ، لمس اور دعا سب کام آلات پر اور انسان مصروف مزید تعمیرِ آلات پر۔ اپنے قریب بچوں، بوڑھوں اور گھر والوں کا ہاتھ پکڑ کر چل کے دیکھیں۔ کسی کے بال بنا دیں۔ کسی کچن می

Ramadan Reflections 02:

  -------------------------------------- The last ten days remaining now. Fascinated by the story of Moses (AS) and Khidr I learned something very interesting. Khidr knew what Moses (AS) did not. The most important take away lesson for me was the line when Khidr says: وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا ﴿٦٨﴾ "And how can you have patience for what you do not encompass in knowledge?" There is so much outside our realm of Knowledge that we cannot encompass. So many times in life that's our reality. Allah knows our limitations. He will never hold us responsible due to them but we should always remember. We do not know much!!! Faith is to be had and not to be measured. It is only when we realise that we do not know that our faith is tested. Remember in duas people. Saima Sher Fazal

ٓآسان لفظوں میں:

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب اخلاقی انحطاط عام ہوجائے تو فقہی اجتهاد آسان ہوجاتا ہے۔ عمل کی جگہ بنانے کے لیے لفاظی چاہیے ہوتی ہے اور عمل کو درست کرنے کے لیے جرات۔ جرات کی کمی کے کچھ عصری نتائج ۱۔ قرآن مجید کے دروس اور کورسز کی بھرمار اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے عملی۔ ۲۔ دینی فرقہ بندیوں میں طاقت کی سیاسی جنگ ۔ ۳۔ ضرورت کو طریقے اور وقت دونوں پر ترجیح دینا۔ ۴۔ دینی گروہوں کی پدرسرانہ تنظیم کے نتیجے میں بکھرتی ہوئی نسائیت۔ ۵۔ تقوی کچھ کے لیے اور توبہ سب کے لیے ۔ ۶۔ خلوص کا خاص ہوجانا۔ ۷۔ سودی طریقہ کار کی کثرت اور اُس پر اجتماعی اطمینان۔ جب ہر وہ گھڑی جس میں اپنائے گئے غلط طریقوں سے ضائع ہوئی جانیں اورر ان کے احوال معاشرے میں پلٹتے ہیں تو پھر کھیلنے والے خود کھیل بن جاتے ہیں اور وقت تماشائی۔ اس کائنات میں طاقت کے کھیل میں جیت ہار نہیں ہوتی ضرف وقت ہوتا ہے۔ ایک وقت طاقت کا اور ایک وقت زوال کا۔ جس وقت میں فقہی جرات اخلاقی قربانی قبول کرلے تو وہ وقت دین کے زوال کا ہوتا ہے۔ صائمہ شیر فضل

INSPIRATION:

A  personal take away symbolising the divine message. The wahi. Hidayah.. The purifying nourishing truth. Allah ji likens the rain water with the divine message in the Quran.  

Ramadan Reflections 01 :

Ramadan Reflections 01: Ten days of the blessed month already gone. This year Ramadan brought an additional blessing for me. A blessing I had been taking for granted for so many years now. I decided to share so that maybe others like me forgetful of this blessing are reminded within time before its lost to them. I was blessed with a 're-bonding' with my ageing parents. Their fragility made me an adult which was wanting of me even after becoming a mother. I dont think this relationship is a give and take relationship. Many a times our parents take us for granted and many a times so do we. There is a special bond which is strengthened with Allah (SWT) when we decide to serve our parents not as a duty or repayment but as a part of realising our role as a vicegerent. To be born from a certain set of parents in a certain household in a certain era is not purposeless. There is a purpose to it and a very deep meaning can be found in watering the soil we took root in. Sometimes an ambi