——————————————
فکر کا تخم بھی بارآور ہونے کے لئے قرار مانگتا ہے۔ قرار آجائے تو وجود مل جاتا ہے۔ فکر کو قرار عمل سے آتا ہے۔ آج کی نوجوان نسل فہم کی سیڑھیاں جس تیزی سے پار کر رہی ہے عمل کو وہاں تک لاتے عمر لگ جاتی ہے۔
اسی کمی یا گیپ کو پُر کرنے میں مدد گار ڈھانچے وضع کرنے پڑیں گے۔ جو اِس فہم کو بریک لگا کر عمل کی چابی دیں سکیں۔
دکھ اور تکلیف اس بات کا ہے کہ جدید معیشت نے انسان کو بھی ریسروس گردانا تو فہم بھی کموڈیٹی یعنی اشیاء صرف میں شامل ہوگیا ۔جب ایسے ہوا تو محض فہم کی خرید و فروخت کے لئے تھنک ٹینکس وجود میں آگئے جہاں انسان کی سوچ اور فہم کو خرید کر آل رائٹس ریزرو کردیا گیا۔ اور اُس کو بھی معیشت کے لئے مخصوص کرلیا گیا۔ محبت اور قربانی پر مبنی ہر سوچ اور فہم بیکار ہوگیا۔
پھر جب تھینک ٹینکس نے مل کر اونچا سوچنا شروع کیا تو پرانے فہم پر عمل کی کمی تو اپنی جگہ رہی اور بجائے اس کے کہ اُس عمل سے کچھ نیا پھوٹتا اُس کی جگہ کچھ نیا سوچنے کے جنون نے پرانا بھی گنوا دیا۔
عمل کی چابی عجز مانگتی ہے۔ صبر مانگتی ہے ۔ توکل و عمر مانگتی ہے۔ یہ سب نیا پن بھی قرار مانگتا ہے اور قرار ہی مزید حرکت کا مؤجب بنتا ہے۔
وَمَا كَانَ قَوْلَـهُـمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُـوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِىٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِـرِيْنَ (147)
اور انہوں نے سوائے اس کے کچھ نہیں کہا کہ اے ہمارے رب ہمارے گناہ بخش دے اور جو ہمارے کام میں ہم سے زیادتی ہوئی ہے (اسے بخش دے)، اور ہمارے قدم ثابت رکھ اور کافروں کی قوم پر ہمیں مدد دے۔
سورہ آل عمران آیت نمبر ۱۴۷
————-
صائمہ شیر فضل
Comments