Skip to main content

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔

 اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی انسانیت کے طوطے اُڑ جاتے ہیں۔

دنیا بھر کے عالم فاضل طاقت ور انسان آجکل مشینوں کی قابلیت کے گواہ ہیں۔ اسی وجہ سے انسانوں پر محنت کرنا گھاٹے کا سودا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ انھی مشینوں کی نقلی عقل نے انسانوں کی عقلی نقل کا نہایت لطافت سے  قلع قمع کیا۔ اب الیکشن میں بھی انسانوں کی بے ایمانی کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مشینیں بھرتی کی گئی ہیں کیونکہ بے ایمانی تو انسانوں میں ہے نا اب مشین بے چاری صرف خیر خواہی میں اُس کی مقدار اور شدت کی نشاندہی ہی کرسکتی ہے انسان کے دل کے اندر جا کر سیاہی کو تو نہیں مانجھ سکتی نا۔ شائد اسی لیے رب کریم نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے انسان ہی کو چُنا۔
ایسی بے ایمانی کی ریگولیشن ہمارے  ایمان دار  بہن بھائیوں کو ایک آنکھ سے تو نہیں بھا رہی شائد دونوں سے بھا جائے۔

ہاں مگر یاد آیا ابھی کچھ دن قبل ہی اسی خیرخواہ فون نے اطلاع دی کہ اب انسانوں کے لیے نقلی دل بھی تیار کردیے گئے ہیں اور یہ نقلی دل اُن انسانوں کے لیے ہیں جن کے اصلی دل فیل ہوچکے ہیں۔ یہ دل فی الحال مدد گار دل ہیں ۔ یعنی یہ صرف تب تک سانس قائم رکھیں گے جب تک کوئی اصلی انسانی دل  قابو نا آجائے۔

نقل اور اصل کی اس کھینچا تانی میں مروت کی قربانی ناگزیر تو نہیں۔۔۔؟

ہے نا!

صائمہ شیر فضل





Comments

Popular posts from this blog

On the Concept of haya and hijab in Islam.

THE COAL MINE OR THE STAR STUDDED SKY:                                                                                                                        Every deen has an innate character. The character of islam is modesty.” Al Muwatta 47.9 The mania of emancipating the Pakistan woman from the “alleged restraints “of religion and custom seems to increase with every passing day. The solution it s...

ON RESPONSIBILITY!

The seemingly inconsequential fly buzzed around incessantly from one nose to another. Some were totally oblivious to its existence, Some bore its buzzing with a somewhat irritated expression while others shooed it away with a wave of their hand. Eventually,  it dived into a teacup. All hell broke loose. “Who let the fly in?”, “What a mess”, “Such a crappy building”, “Who left the window open?” “Who opened the window?”, “Why can’t you put a lid on your cup?”, “Why don’t we have fly screens for these doors and windows?”, “Why don’t we have a fly repellent?” A guy sitting on the far end folded his magazine and squatted the fly as soon as it landed on his desktop. That was ‘The End’ for the fly. (inspired from a real-life scene) We can roughly categorise the two kinds of behaviours/personalities described in the scenario above as ‘reactive’ and ‘proactive’. Out of these two our people fall into the ‘reactive’ category. A nation of reactive individuals who are not willing to...

The truth unveiled!

VALENTINE’S DAY The truth unveiled 'Every deen has an innate character. The character of Islam is modesty.' Al Muwatta 47.9 HOW IT STARTED: Like most Christian festivals, the origin of Valentine’s Day also lies in the pagan Rome. In ancient Rome young men and women used to celebrate this festival where the women would write love letters and throw them in a huge pot. Then the men would choose their partners through lottery and would court (relationship before marriage) the girl whose letter came in their hands. (Webster’s family encyclopedia). According to the encyclopedia this festival has no direct or indirect link to the life of Saint Valentine (269 A.D). To make Christianity more popular and acceptable among the pagan masses, the Christian clergy added this festival to Christianity by celebrating this day as Saint Valentine’s Day. The myths regarding Saint Valentine giving his life for the sake of love and others are all false. WHERE DO WE ST...