Skip to main content

بڑائی


بڑائی!

“مجھے نہیں سمجھ آتی  آپ ہر دفعہ مجھے ہی کیوں پیچھے ہٹنے کو کہتی ہیں۔ جب بانٹنا ہو میں ہی بانٹوں۔ جب چھوڑنا ہو میں ہی چھوڑوں۔ جب رکنا ہو میں ہی رکوں۔ آپ ہمیشہ صیح نہیں ہو سکتیں اماں۔ “

“ہر وقت دوسروں کو اتنی گنجائش بھی نہیں دینی چاہئے۔ میں ہر وقت نہیں رُک سکتا۔ لوگ غلط بھی ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح “ ظلم کا ساتھ دینا ہوتا ہے”!

محمد غصے میں بولتا چلا جا رہا تھا اُس کو بالکل پتا نا چلا کہ حیا اُس کے اس جملے پر کتنا چونکی تھی اور کیسے اس جملے نے جیسے اُس کے لئے زماں و مکاں کے تمام حجابوں کو طے کرکے اُسے پھر سے ماضی کے اُسی لمحے میں پہنچا دیا تھا جس کو وہ اپنی دانست میں بھلا چُکی تھی۔ باجی کی شفیق اور فکرمند آواز پھر سے حیا کے کانوں میں گونجنے لگی۔

“حیا آخر کب تک ؟ آخر کب تک تم ظلم کا ساتھ دو گی؟
یہ اسلام نہیں ہے۔ ظالم کو  ظلم سے نا روکنا صبر نہیں ہے!
صبر میں انسان عمل کرنا چھوڑ نہیں دیتا۔ ہر غلط سلط بات سہتا نہیں چلا جاتا۔ اصلاحِ حال بھی کرتا ہے۔ تم ان بچوں کو تباہ کر دو گی اس طرح کی زندگی سے۔
وہ نہیں جانتے صیح غلط کیا ہے۔ تم ماں باپ جو کرو گے وہی صیح غلط بن جائے گا اُن کے لئے۔ لوگوں سے نفرت کرنا۔ کمرے میں بند رہنا۔ ہر شے اور انسان کو پلید سمجھنا۔ یہ انسان کے بچے ہیں۔ انھیں جانوروں کی طرح نا پالو!“

پھر وہ دوسری شفیق آواز ، “حیا دین کا علم حاصل کرنا ایک بہت پسندیدہ عمل ہے مگر کہیں یہ محض تمھارے لئے ایک فرار نا بن جائے اپنی حقیقت سے۔ یاد رکھو دین وہی ہے جو تمھارے عمل میں آجائے۔ اس لئے پہلے اپنی حقیقت کو مان لو، دل و جان سے قبول کرو۔ اللہ کی دین سمجھو ۔ اُس کے بعد تمھارا جو بھی قدم اُٹھے گا۔ صیح سمت میں ہوگا”

دونوں ہی اُس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں  سے واقف تھیں۔ اصل تو اُس کو ہی علم تھا اور مکمل تو خدا کی ذات کے علاوہ کسی کو بھی نہیں۔

وہ لمحے انتہائی کٹھن لمحے تھے حیا کی زندگی میں۔ اصلاح کا اختیار رب نے اُسے وہاں دیا ہی نہیں تھا۔ حقیقت اُس کی بہت تلخ تھی۔ پیچھے وہ جا سکتی  نہیں تھی۔ اور آگے گھپ اندھیرا تھا۔

ظلم کا ساتھ!

کیا میں ظلم کا ساتھ دے رہی ہوں؟

ایسے تو حیا نے سوچا ہی نا تھا۔ وہ تو اپنے آپ کو بے بس سمجھتے ہوئے کب کی ہار مان چکی تھی۔ وہ کیسے بدل سلتی تھی اپنے حالات وہ نہیں جانتی تھی۔

خوش رہنا سیکھ لیا تھا حیا نے ۔
اپنے اللہ سے باتیں کرنا سیکھ لیا تھا۔
دینے میں ہی اصل پانا ہے۔
چھوڑنے میں ہی اصل حاصل ہے۔
اور جس کو رُکنا آجائے وہی تو چل پاتا ہے۔

وہ ماضی سے واپس آچکی تھی۔ محمد غصہ کر کے اپنا فون پکڑے بیٹھا تھا اور ماں کے جواب کا منتظر تھا۔

“آپ صیح کہتے ہو بیٹا ۔ میں ہمیشہ صیح نہیں ہوتی۔ اور واقعی ظلم کا ساتھ نہیں دینا چاہئے۔ مگر ہر انسان کا اس دنیا میں ایک سفر ہے۔ کبھی کوئی سفر کے شروع میں اُس سے مل جاتا ہے جو سفر کے بیچ میں پہنچ چکا ہو۔ اس لئے دونوں کو بہت سی باتیں فرق لگتی ہیں۔ وہ فرق صیح یا غلط نہیں ہوتا ۔ بس فرق ہوتا ہے۔ وقت کا۔ فہم کا۔

محمد راستہ اگر ایک ہو نا تو جیتنا ضروری نہیں ہوتا۔ ساتھ چلنا ضروری ہوتا ہے۔ آپ کو بہت جلدی ہے۔ اور آپ کا فہم بھی زیادہ ہے۔ اس لئے روکتی ہوں آپ کو۔ اس لئے چھوڑنے کو کہتی ہوں۔ آپ کو پتا ہے بڑا انسان اپنے ظرف سے بنتا ہے۔ عمریں تو مجبوری کا پیمانہ ہیں۔ آپ کو نہیں پتا ہے آپ کو اللہ نے بڑا پیدا کیا ہے۔ آپ چھوٹے ہوتے سے ہی بڑے ہو ۔ اپنے فہم میں، اپنے ظرف میں اور اپنی عادت میں۔ آپ مرد ہو نا۔

مرد تو بڑا ہی ہوتا ہے۔

“جب مرد بڑا نہیں رہتا نا بیٹا تو پھر بہت تباہی آتی ہے۔ بہت تباہی آتی ہے۔ آپ بڑے ہی رہنا پلیز۔ “
حیا نے بہت محبت سے اپنے جوان بیٹے کی آنکھوں میں دیکھا۔

محمد کی آنکھوں کی حرکت اور چمک میں ادراک کی گہرائی جھلک رہی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر اماں کے پاس آگیا اور اماں کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے وعدہ کیا۔

“اماں میں وعدہ کرتا ہوں میں ہمیشہ بڑا بن کر ہی رہوں گا”

#ایمان پر لوٹیں
#اسلام پر لوٹیں

ثمین صدف

Comments

Popular posts from this blog

On the Concept of haya and hijab in Islam.

THE COAL MINE OR THE STAR STUDDED SKY:                                                                                                                        Every deen has an innate character. The character of islam is modesty.” Al Muwatta 47.9 The mania of emancipating the Pakistan woman from the “alleged restraints “of religion and custom seems to increase with every passing day. The solution it s...

ON RESPONSIBILITY!

The seemingly inconsequential fly buzzed around incessantly from one nose to another. Some were totally oblivious to its existence, Some bore its buzzing with a somewhat irritated expression while others shooed it away with a wave of their hand. Eventually,  it dived into a teacup. All hell broke loose. “Who let the fly in?”, “What a mess”, “Such a crappy building”, “Who left the window open?” “Who opened the window?”, “Why can’t you put a lid on your cup?”, “Why don’t we have fly screens for these doors and windows?”, “Why don’t we have a fly repellent?” A guy sitting on the far end folded his magazine and squatted the fly as soon as it landed on his desktop. That was ‘The End’ for the fly. (inspired from a real-life scene) We can roughly categorise the two kinds of behaviours/personalities described in the scenario above as ‘reactive’ and ‘proactive’. Out of these two our people fall into the ‘reactive’ category. A nation of reactive individuals who are not willing to...

The truth unveiled!

VALENTINE’S DAY The truth unveiled 'Every deen has an innate character. The character of Islam is modesty.' Al Muwatta 47.9 HOW IT STARTED: Like most Christian festivals, the origin of Valentine’s Day also lies in the pagan Rome. In ancient Rome young men and women used to celebrate this festival where the women would write love letters and throw them in a huge pot. Then the men would choose their partners through lottery and would court (relationship before marriage) the girl whose letter came in their hands. (Webster’s family encyclopedia). According to the encyclopedia this festival has no direct or indirect link to the life of Saint Valentine (269 A.D). To make Christianity more popular and acceptable among the pagan masses, the Christian clergy added this festival to Christianity by celebrating this day as Saint Valentine’s Day. The myths regarding Saint Valentine giving his life for the sake of love and others are all false. WHERE DO WE ST...