Posts

Showing posts from October, 2021

آسان لفظوں میں:

اعلان:مندرجہ ذیل تحرير میں ایک غیر مسلم باجی کی تحقیق کو پسند کیا گیا ہے۔ جن جن کو لادین فکر اور انگریز کی غلامی کی جادوئی جکڑ کا خطرہ لاحق ہے وہ اپنے اپنے بلوں میں منہ دیے رکھیں اور پڑھنے سے اجتناب کریں ۔ خوفزدہ کے ایمان اور عقل دونوں میں موجود خرابی اور زیادہ ہوسکتی ہے۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالج کے زمانے میں اکثر دوست احباب میں ایک پنجابی مقولہ بولتے،سنتے تھے۔ "سوچی پیا تے بندہ گیا!"  یہ وہ زمانہ تھا جب ہر کام عموما کم  سوچ کر کئے جاتے تھا اسی لیے شائد کام ہو بھی جاتے تھے۔اس بات کو میرے سوچنے والے نظریاتی بہن بھائیوں اور باجیوں نے ہرگز دل پر نہیں لینا۔ آپ اپنی سوچ پر بالکل تالے نا ڈالیں۔ بس لوگوں اور خیالی دشمنوں کے بارے میں کم سو چیں تو انشااللہ آفاقہ ہوگا۔ایک غیر نظریاتی اور غیر مسلم باجی کی تحقیق  پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ باجی کا نام سوزن ہوئیکسیما ہے۔ اپنی کتاب "ویمن ہو تھنک ٹو مچ" (women who think too much) میں انھوں نے ریسرچ کی دانستہ کوشش سے یہ ثابت کیا کہ  باجیاں جو زیادہ سوچتی ہیں وہ زیادہ تر منفی ہی سوچتی ہیں اور غ

On Cue:

 Rabi ul awl in the sub-continent brings with it a festivity unique to the people of this region alone. The sporadic dusting of green lights here and there near the 12th has been replaced by a full fledge month long celebration now. Most big city buildings are lit up in green after Maghreb. The banners of different organisations welcoming the month and competing in a verbose religiosity representative of each one's own 'loyal version'.  Each claiming an entitlement to the righteous legacy of the beloved Prophet Muhammad (SAW). Some claim "political governance" is his legacy. Some claim the same for  "military leadership". Some push for the re-instatement of the 'ideal khilafah'. Some chant democratic anthems. None yet able to convince the masses to follow the beloved Prophet's sunnah in their behaviours. His actual forte was his 'Ikhlaq'(character) which won him all yet it faces abandonment by his loyal followers. His strength was his

آسان لفظوں میں:

جدید   قومی   ریاست   اور   فریج    جدید   دور   کے   ٹیکنالوجکل   ڈٹرنزم  (technological determinism)  میں   فریج   کی   اہمیت   پر   غور   و   فکر   کیا   جائے   تو   کچھ   عجب   نا   ہوگا۔   یہ فریج   ایک   گھر   کی   معیشت،   معاشرت   اور   سیاست   تینوں   جہتوں   میں     ایک   موثر   کردار   ادا   کرتا   ہے۔  (  یقین   نا   آئے   تو   محلے   کی   باجی   سے رجوع   کریں ) کچن   میں   رکھا   جائے   تو   اپنی   مدد   آپ   اسکیم،   ڈرائینگ   روم   یاکامن   روم   میں   رکھ   دیا   جائے   تو   جاسوسی   مہم،   سونے   والے   کمروں   کی راہدری   میں   تو     معاشی   مفاہمت   اور   بیٹے،بہو   کے   کمر   ے   کے   اندر   تو   صریح   جنگی   چال۔   خاندان   کے   پارلیمان   میں   فریج   کے   اس   کردار   کو   جس   نے   سمجھ   لیا   تو   گویا   فوکو  (foccault)  کے   مائی   باپ   نطشے  (Nietzsch) اور   فرائڈ (freud) کی   انتشار   پسند   تنظیم   کو   سمجھ   لیا۔   یہاں   پر   فریج   ساسو   ماں   کے   اقتدارِ   اعلی  (sovergnity)  کا   نشان   ہے۔   جنگی   چال   مثالی   اقتدار   کی   عدم   موجودگی (

On cue: Teenage brains and pedagogy

Image
 "What we know now is that no two human brains are wired exactly the same and experience shapes us all differently. Its the final frontier, our own internal frontier and we are just now beginning to see all the patterns" writes neurologist Frances.E Jensen in her book "The teenage brain, A neuroscientists guide to raising adolescents and young adults". She wonders further: "When i look at the brain cells under a microscope, I think of the billions of neurons  that are interconnected and how we are still trying to figure out the wiring" Dr Jensen wrote this book not only as a doctor but also as a mother to two teenage boys. Her spatial intelligence enhanced the visual imagery inside and every time she dealt with  teenage behaviour she would imagine the physical reality of the wires and bleeps inside. The book makes an interesting read for any mother struggling with her teens. What intrigued me most and made me stop and reflect was the line I quoted in the b

آسان لفظوں میں:

 اختیار اور ذمہداری کا رشتہ آپس میں بالکل ایسا ہے جیسے جسم اور روح کا۔ جس اختیار کے استعمال میں سے احساسِ ذمہداری نکل جائے اور اختیار کا جنون خوفِ محرومی میں مبتلا کردے وہ اختیار جبر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ طاقت کی یہ جبری شکل  فرد کو ایک مستقل گناہ گار اور اقرار و تسليم کو ایک مستقل ضرورت بنا کر افراد پر اپنا اختیار استوار کرتی ہے۔ اس اقرار و تسليم اور ازلی گناہ کی کیفیت میں  آجکل کے وی لوگز اور میڈیا میں مذہبی اور غیر مذہبی افراد یکساں شکار ہیں۔  اس نفسيات کو فوکو بھائی 'confession' کے نام سے عیسائیت کی بگڑی ہوئی شکل سے منسوب کرتے ہیں۔   یہی دانش اس دور کی نفسیات کی نبض پر براجمان ہے۔ اس کے لیے ہم فوکو(Foucault) بھائی سے سخت نالاں ہیں  جو خود تو اس دنیا سے کوچ کرگئے مگر انجانے میں اپنے پیچھے آنے والوں کو اختیار سے کھیلنے کے پُرتشدد راستے دکھا گئے۔ اس مسئلے کو لے کر ہمارے دینی بہن بھائی تمام مغربی سوچ کے ہی دشمن ہوجاتے ہیں اور ہمارے آزاد بہن بھائی مذہب کے اجاراہ داروں کے دشمن۔ مگر یہ مسئلہ دراصل مذہب پر عمل کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ یہ مسئلہ مذہب کو طاقت کی خاطر بگاڑے کا مسئلہ ہے۔