Skip to main content

آسان لفظوں میں:

 اختیار اور ذمہداری کا رشتہ آپس میں بالکل ایسا ہے جیسے جسم اور روح کا۔ جس اختیار کے استعمال میں سے احساسِ ذمہداری نکل جائے اور اختیار کا جنون خوفِ محرومی میں مبتلا کردے وہ اختیار جبر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ طاقت کی یہ جبری شکل  فرد کو ایک مستقل گناہ گار اور اقرار و تسليم کو ایک مستقل ضرورت بنا کر افراد پر اپنا اختیار استوار کرتی ہے۔ اس اقرار و تسليم اور ازلی گناہ کی کیفیت میں  آجکل کے وی لوگز اور میڈیا میں مذہبی اور غیر مذہبی افراد یکساں شکار ہیں۔

 اس نفسيات کو فوکو بھائی 'confession' کے نام سے عیسائیت کی بگڑی ہوئی شکل سے منسوب کرتے ہیں۔   یہی دانش اس دور کی نفسیات کی نبض پر براجمان ہے۔ اس کے لیے ہم فوکو(Foucault) بھائی سے سخت نالاں ہیں  جو خود تو اس دنیا سے کوچ کرگئے مگر انجانے میں اپنے پیچھے آنے والوں کو اختیار سے کھیلنے کے پُرتشدد راستے دکھا گئے۔

اس مسئلے کو لے کر ہمارے دینی بہن بھائی تمام مغربی سوچ کے ہی دشمن ہوجاتے ہیں اور ہمارے آزاد بہن بھائی مذہب کے اجاراہ داروں کے دشمن۔ مگر یہ مسئلہ دراصل مذہب پر عمل کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ یہ مسئلہ مذہب کو طاقت کی خاطر بگاڑے کا مسئلہ ہے۔ اس لیے یہاں بھیtrouble making یعنی مسائل پیدا کرنے والی بدماشی مذہب کے اجارہ داروں سے زیادہ اختیار کے اجاراہ داروں کی عادت ہے۔ دونوں کا ایکا ہوجائے تو پاکستانی سیاست جیسے کھیل وجود میں آتے ہیں۔

حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور کا ایک واقعہ پڑھا۔ یہ واقعہ  اختیار اور ذمہ داری کی باہم تحدید کا ایک ایسا بہترین اخلاقی ماڈل پیش کرتا ہے کہ اگر فوکو صاحب نے پڑھا ہوتا تو اپنے آپ کو طاقت کے معمے حل کرتے کرتے انتہا کا شکار ہونے سے بچا لیتے۔ 

ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ  رات کے اوقات میں اپنے معمول کے گشت پر تھے۔ دونوں کو ایک جگہ روشنی نظر آئی تو اُس کی طرف چل دیے۔ وہ روشنی ایک گھر سے آرہی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ رات کے اس پہر جلتی مشعل دیکھ کر گھر کے اندر داخل ہوگئے۔ اندر ایک عمر رسیدہ فرد شراپ پی رہا تھا اور ایک گانے بجانے والی کے فن سے لطف انداوز ہورہا تھا۔ 

حضرت عمر رضی الله عنہ نے یہ سب دیکھ کر اُس فرد کو تنبیہ کی:

"میں نے آج تک ایسا شرمناک منطر نہیں دیکھا کہ ایک ایسا شخص جس کو اپنی موت کی تیاری کرنی چاہیئے ہو وہ ایسے شغل میں مشغول ہو" 

عمر رسیدہ فرد نے حضرت عمر رضی الله عنہ کو کہا کہ:

 "یقیّنا اے امیر المومنین آپ نے میرے گھر میں بلا اجازت قدم رکھا اور میری جاسوسی کی، کیا یہ دونوں اسلام میں ممنوع نہیں؟"

اس بات پر حضرت عمر رضی الله عنہ نے اس آدمی کی بات کی سچائی کا اعترف کیا اور فورا اُس کے گھر سے نکل گئے۔ جاتے جاتے اُن کی آنکھ میں آنسو تھے اور منہ میں دانتوں تلے اپنا کپڑا دبایا ہوا تھا۔ ساتھ ساتھ وہ اللہ تعالی سے دعا کرتے جاتے کہ " عمر کی ماں اُس کو کھو دے اگر اللہ عمر کے عمل کو معاف نا کرے"۔ اس واقعے کے بعد اُس فرد نے حضرت عمر کی محفل میں آنا چھوڑ دیا۔ ایک دن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُس فرد کو اپنی محفل میں دیکھا۔ وہ پچھلی صفوں میں بیٹھا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُس کو قریب آنے کا اشارہ کیا۔ وہ فرد محفل میں تھوڑا سا قریب آتا تو حضرت عمر اُس کو مزید قریب آنے کی دعوت دیتے۔ یہاں تک کہ وہ دونوں باکل ساتھ ساتھ بیٹھ گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا منہ اُس کے کان کے قریب کیا اور کہا:

"اُس رب کی قسم جس نے حضرت محمدؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ میں نے اُس واقعے کا ذکر آج تک کسی سے نہیں کیا، نا ہی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ سے حالانکہ وہ میرے ساتھ تھا۔"

عمر رسیدہ فرد نے جواب دیا: 

"امیرالمومنین میں نے بھی اُس دن سے وہ اعمال دوبارہ نہیں کیے"

اس پر حضرت عمر رضي الله عنہ نے "الله اکبر" کہا اور محفل میں کسی تیسرے فرد کو نا پتا چلا کہ دونوں کے درمیان کیا بات ہوئی۔

اس واقعے میں اختیار اور احساس ذمہداری دونوں طرف عیاں ہے۔ حسن دونوں میں اللہ کے آگے جوابدہی کے خوف نے پیدا کیا۔ انسانوں کے خوف نے نہیں۔

جس دن ہمارے اجارہ داروں کو یہ سمجھ آجائے گی تو تبدیلی چاہے الیکشن کے طریقے کی ہو ۔ ای گورننس کی ہو۔ الیکٹورل ریفارم کی ہو۔ عدل و توازن برقرار رکھنا آسان ہو جائے گا اور اختیار کی اجارہ داریاں ٹوٹ جائیں گی۔


صائمہ شیر ٖ فضل 



Comments

Popular posts from this blog

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔  اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی ...

Hermeneutics and symbolism

Quran does not limit human experience with metaphor. It uses metaphor to expand his/her intellectual horizon but it uses real stories to limit the interpretation. Similarly the symbolism in Quran is not a mere metaphor. Every symbol has a reality but we are told by Allah ji to not try interpreting them in this world. The wisdom behind this is undoubtedly profound. Human reality cannot be based on allusions to something which no human has ever experienced thus it has to be based on something which is experienceable . Practicable and implementable. Such is the reality of prophetic examples in all three monotheistic religions.  It would be relevant to note here that lived experience is of vital importance but the lived experience of one individual cannot be generalised unless the creator and steerer of  all lived experiences chose that individual. That is why safeguarding the prophetic legacies and believing in the finality of prophet hood is vital today for those who choose to b...

آسان لفظوں میں:

اعلان:مندرجہ ذیل تحرير میں ایک غیر مسلم باجی کی تحقیق کو پسند کیا گیا ہے۔ جن جن کو لادین فکر اور انگریز کی غلامی کی جادوئی جکڑ کا خطرہ لاحق ہے وہ اپنے اپنے بلوں میں منہ دیے رکھیں اور پڑھنے سے اجتناب کریں ۔ خوفزدہ کے ایمان اور عقل دونوں میں موجود خرابی اور زیادہ ہوسکتی ہے۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالج کے زمانے میں اکثر دوست احباب میں ایک پنجابی مقولہ بولتے،سنتے تھے۔ "سوچی پیا تے بندہ گیا!"  یہ وہ زمانہ تھا جب ہر کام عموما کم  سوچ کر کئے جاتے تھا اسی لیے شائد کام ہو بھی جاتے تھے۔اس بات کو میرے سوچنے والے نظریاتی بہن بھائیوں اور باجیوں نے ہرگز دل پر نہیں لینا۔ آپ اپنی سوچ پر بالکل تالے نا ڈالیں۔ بس لوگوں اور خیالی دشمنوں کے بارے میں کم سو چیں تو انشااللہ آفاقہ ہوگا۔ایک غیر نظریاتی اور غیر مسلم باجی کی تحقیق  پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ باجی کا نام سوزن ہوئیکسیما ہے۔ اپنی کتاب "ویمن ہو تھنک ٹو مچ" (women who think too much) میں انھوں نے ریسرچ کی دانستہ کوشش سے یہ ثابت کیا کہ  باجیاں جو زیادہ سوچتی ہیں وہ زیادہ تر منفی ہی سوچتی ہیں ا...