Posts

Showing posts from May, 2020
محبت کے رنگ : اماں وہ دیکھو! محمد نے بھاگتے ہوئے جب  آسمان کی طرف اشارہ کیا تو حیا نے نظر اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ نیلے آسمان پر سو دو سو کے قریب چڑیوں کا چھوٹا سا جھنڈ آسمان میں ایسے اُڑ رہا تھا کہ اُن کے چھوٹے چھوٹے پر ایک ہی لمحے میں اُوپر اُٹھتے اور پھر نیچے گرتے۔ ایسی ہم آہنگی تھی اُن کی پرواز میں  ، ایسی مظبوطی اور یقین جیسے کوئی پکڑے ہوئے ہے اُنھیں جیسے وہ کہہ رہی ہوں اے انسانوں کیا تمھیں ہے اتنا یقین ؟ جیسے فخر ہو اُن کو اپنے اس خوبصورت رقص پر ! جیسے کہہ رہیں ہوں،  دیکھو ہمیں! سوچو ، کیا یہ سب اتفاق ہے؟ اور تم ۔۔۔۔؟ تم خود کیا ہو؟ اے انسان! کیا تم ہم سے زیادہ بڑی نشانی نہیں؟! کیا تمھارا خود کا وجود کافی نہیں یقین کے لئے؟ کیا اب بھی ایمان نا لاؤ گے؟ کیا اب بھی اُس کی بڑائی کا اعتراف نا کرو گے؟! کب تک؟ آخر کب تک؟ حیا کا دل جیسے اُن کے پروں کی حرکت کے ساتھ ساتھ دھڑکنے لگ گیا تھا۔ اُس کا دل ہار چکا تھا اپنے رب کے آگے۔ وہ اپنے رب کی بڑائی اور حکمت کا اعتراف کر چکی تھی۔ وہ بھول چکی تھی کہ وہ کہاں کھڑی ہے۔اُس کا رواں رواں سبحان اللہ پکار رہا تھا۔اُس کا دل محبت ک
آزمائش! وَ فَرِحُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ ﴿٪۲۶﴾ اور یہ لوگ مگن ہیں دنیا کی زندگی پر‘ حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے تھوڑے سے فائدے کے۔ اس آیت پر حیا جیسے اٹک سی گئی۔ اس سے آگے اُس سے تلاوت کی ہی نہیں جارہی تھی۔زبان جیسے گنگ ہو گئی تھی۔ اُس نے محمد کی طرف دیکھا جو ابھی مزے سے سو رہا تھا۔ “ماما مجھے آپ نے نہیں اُٹھانا میں خود اُٹھ جاؤں گا” ۔ رات کو محمد حیا کو یہ کہہ کر سویا تھا۔ کھڑکی سے آنے والی دھوپ ایسے جیسے بالکل دبے پاؤں اُس سے بچ کر آہستہ آہستہ اُس کے چہرے پر سرکنے کی کوشش کررہی تھی۔ حیا کو سمجھ تھی کہ محمد نے ابھی  اپنا سفر طے کرنا ہے ۔ اپنے حصے کی آزمائش گزارنی ہے ۔ اُسی صورت اُس کو اس آیت کی حقیقت سمجھ آسکتی تھی۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اُس کو وہ فہم نہیں دے سکتی تھی جو زندگی نے اُس کو دیا تھا۔ کیونکہ اُس کو بھی زندگی نے ہی دینا تھا۔ اپنا مصحف بند کر کے حیا اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ اپنے جوگرز کے تسمے باندھتے باندھتے حیا ماضی میں کھو چکی تھی۔دروازہ کھول کر باہر نکلتے وقت اُس کو یہ ب

بڑائی

بڑائی! “مجھے نہیں سمجھ آتی  آپ ہر دفعہ مجھے ہی کیوں پیچھے ہٹنے کو کہتی ہیں۔ جب بانٹنا ہو میں ہی بانٹوں۔ جب چھوڑنا ہو میں ہی چھوڑوں۔ جب رکنا ہو میں ہی رکوں۔ آپ ہمیشہ صیح نہیں ہو سکتیں اماں۔ “ “ہر وقت دوسروں کو اتنی گنجائش بھی نہیں دینی چاہئے۔ میں ہر وقت نہیں رُک سکتا۔ لوگ غلط بھی ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح “ ظلم کا ساتھ دینا ہوتا ہے”! محمد غصے میں بولتا چلا جا رہا تھا اُس کو بالکل پتا نا چلا کہ حیا اُس کے اس جملے پر کتنا چونکی تھی اور کیسے اس جملے نے جیسے اُس کے لئے زماں و مکاں کے تمام حجابوں کو طے کرکے اُسے پھر سے ماضی کے اُسی لمحے میں پہنچا دیا تھا جس کو وہ اپنی دانست میں بھلا چُکی تھی۔ باجی کی شفیق اور فکرمند آواز پھر سے حیا کے کانوں میں گونجنے لگی۔ “حیا آخر کب تک ؟ آخر کب تک تم ظلم کا ساتھ دو گی؟ یہ اسلام نہیں ہے۔ ظالم کو  ظلم سے نا روکنا صبر نہیں ہے! صبر میں انسان عمل کرنا چھوڑ نہیں دیتا۔ ہر غلط سلط بات سہتا نہیں چلا جاتا۔ اصلاحِ حال بھی کرتا ہے۔ تم ان بچوں کو تباہ کر دو گی اس طرح کی زندگی سے۔ وہ نہیں جانتے صیح غلط کیا ہے۔ تم ماں باپ جو کرو گے وہی صیح غلط بن جائے گا اُن

اصل تصویر:

آج کی دنیا تصویروں کی دنیا ہے۔ رُکی ہوئی تصویریں  اور چلتی پھرتی تھری ڈی تصویریں۔ ایک پل میں جن کو دیکھ کر لگے کہ ابھی ہم بس کاغذ کی اِس حقیقت میں داخل ہی ہوئے جاتے ہیں یا پھر بس ابھی ایک پل میں ہی یہ حقیقت بس کاغذ سے باہر ہی آیا جاتی ہے۔ بڑی بڑی لائف سائز تصاویر ۔ ڈیجیٹل تصاویر ۔  ایڈیٹنگ اور ایفیکٹس اصل کو ایک نیا اصل دیتے ہیں۔ نیا اصل؟! نیا اصل وہ جس کو بننے کے لئے اور حاصل کرنے کے لئے ہم انسان خود کو بدلتے ہیں۔ جو نظر آتا ہے وہ بننے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اپنی اصل حقیقت سے بہت جلد بہت دور چلے جاتے ہیں۔ آج کل حقیقت اکثر ان تصویروں کے بل بوتے پر کھڑی کر دی جاتی ہے پھر حسبِ ضرورت یہی تصویریں  اُس کو منہدم کرنے کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ تصویروں کی اس بنتی بگڑتی دنیا میں اصل میں کیا بنتا ہے اور اصل میں کیا ختم ہوجاتا ہے وہ اکثر پسِ تصویر ہی رہ جاتا۔ ہم اپنی تصویروں کا ضمیمہ بن جاتے ہیں اور ہماری تصویر ہمارا اصل۔ اور وہ مصورِ عظیم ۔ ہمارا خالق و مالک۔ جس نے ہمیں ہماری اصل دی۔ ایک تصویر وہ بھی دکھاتا ہے ہمیں اپنی کتاب میں۔ اُس انوکھی تصویر جیسی کوئی اور نہیں۔ اُس می