Posts

Showing posts from October, 2017

لفظ

لفظ: اک لفظ خود حجاب ہے اک لفظ بے حجاب سا تاثیر میں الگ الگ اظہار میں جُدا جُدا اک بے صبر، اک دلنشیں اک ہے گماں ، دوجا یقیں اک تخمِ بیداری بنے دوجا بنے تخمِ بے خودی خلوت میں جس کو نمو ملی عزلت میں جس کی حیات تھی قوت تھی جس میں نفوز کی تطہیر کی، تعمیر کی وہ لفظ اب نا پید ہے مُو ہوم ہے ، مفقود ہے۔ ہر شے اور احساس کو ہر نام ، ہر انسان کو اظہار کی اب قید ہے اس قید کا جو نام ہے وہ "آزادیِ اظہار" ہے۔ الفاظِ حاظر میں کہاں وہ جان اب باقی رہی  جو روح کا احساس تھی،جو قلب کا وجدان تھی ہر لفظ ، ہر تحریر میں لطافت سے بے اعتناعی ہے اک سطحی سی صناعی ہے الفاظ بھی بکتے ہیں اب روح کا بھی مول ہے کچھ بھی اس دور میں اب کہاں انمول ہے۔ تو لفظ اپنے چن لو سب کہ وقت بہت کم ہے اب وہ چنو کہ جس کو ثبات ہو وہ جو ابتداِ  دوام ہو جسے قانونِ کائنات میں بقا ہو مکافات میں کہ وقت بہت کم ہے اب ہاں وقت بہت کم ہے اب ! ثمین صدف

عبداللہ !

عبداللہ: بنایا تم کو کس نے ہے؟ کیا کوئی ہے کہ خود سے ہو ؟ ازل سے ہو؟ ابد تک ہو؟ نہیں ہو نا؟! تو پھر کیا ہو؟ فقط نقطوں میں اِک نقطہ؟ فقط ذروں میں اِک ذرہ؟ کامل ہو کہ ناقص ہو؟ خالق ہو کہ خلقت ہو؟ تو پھر یہ فیصلہ کر لو! حقیقت اپنی تم چن لو! غلامی گر ہے فطرت میں اسیری گر ہے قسمت میں تو پھر یہ کشمکش کیسی؟ تو پھر یہ شش و پنج کیسی؟ بشر کی ہو؟ یا رب کی ہو ؟ یہی چننا ہے نا تم کو؟ تو پھر کیوں نا غلامی اُس کی چن لیں ہم ۔۔۔ مُرّتب جو مراتب کا، موّلد جو عناصر کا۔۔۔ اوّل، وہ جسے کردے، مؤخر وہ نہیں ہوتا! عمل گر ایک سا بھی ہو، ماحصل یک نہیں ہوتا! یہی تو کاروانِ قدرت میں۔۔ علامت ہے اسارت کی یہ عالم قید خانہ ہے کوئی رکنے کی جا تھوڑی! یہ ان دیکھی سلاسل جو تمہیں بڑھنے سے روکے ہیں۔۔ یہی تو اصل میں تم کو تمھارے رب سے جوڑے ہیں۔۔ انھیں مظبوط تھامو تم، یہیں سے راستہ پکڑو! نہیں ہے شک کوئی اس میں ! ہم اُس کے تھے، اُسی کے ہیں! اُسی کے پاس سے آئے! اُسی جانب پلٹنا ہے! ثمین صدف۔

عدلِ کُل کا پرزہ

اِک کوشش میں بھی کرتی ہوں اِک کوشش تم بھی کر دیکھو ہر پل کے شور تماشے میں جو اپنا توازن کھو بیٹھو تو اوزان برابر کرنے میں میزان کو سیدھا رکھنے میں نا وقت اپنا برباد کرو نا خود تم خدا بن بیٹھو رب کے کام رب جانے انسان ہو تم انسان رہو اپنے کام سے کام رکھو انسان کا کام ہے ڈٹ جانا ہر حق کی بات پہ جم جانا اوزان تو رب کے ہاتھ میں ہیں آفاق میں عادل وہ ہی ہے انسان تو بس اِک بندہ ہے اِک آلہ ، اِک کارندہ ہے متاعِ کلاں کے کُل میں۔۔۔ معمولی سا اِک پرزہ ہے جو اپنی جگہ جب جم جائے تو اگلا پرزہ ہلتا ہے یہ راز سمجھنے والا ہی پھر عدل کے اِن کُل، پرزوں میں۔۔۔۔ اِک قابِل پرزہ بنتا ہے ثمین صدف