عبداللہ !

عبداللہ:

بنایا تم کو کس نے ہے؟ کیا کوئی ہے کہ خود سے ہو ؟
ازل سے ہو؟
ابد تک ہو؟
نہیں ہو نا؟!
تو پھر کیا ہو؟
فقط نقطوں میں اِک نقطہ؟
فقط ذروں میں اِک ذرہ؟
کامل ہو کہ ناقص ہو؟
خالق ہو کہ خلقت ہو؟
تو پھر یہ فیصلہ کر لو!
حقیقت اپنی تم چن لو!
غلامی گر ہے فطرت میں
اسیری گر ہے قسمت میں
تو پھر یہ کشمکش کیسی؟
تو پھر یہ شش و پنج کیسی؟
بشر کی ہو؟ یا رب کی ہو ؟
یہی چننا ہے نا تم کو؟
تو پھر کیوں نا غلامی اُس کی چن لیں ہم ۔۔۔
مُرّتب جو مراتب کا، موّلد جو عناصر کا۔۔۔
اوّل، وہ جسے کردے، مؤخر وہ نہیں ہوتا!
عمل گر ایک سا بھی ہو، ماحصل یک نہیں ہوتا!
یہی تو کاروانِ قدرت میں۔۔
علامت ہے اسارت کی
یہ عالم قید خانہ ہے
کوئی رکنے کی جا تھوڑی!
یہ ان دیکھی سلاسل جو تمہیں بڑھنے سے روکے ہیں۔۔
یہی تو اصل میں تم کو تمھارے رب سے جوڑے ہیں۔۔
انھیں مظبوط تھامو تم،
یہیں سے راستہ پکڑو!
نہیں ہے شک کوئی اس میں !
ہم اُس کے تھے، اُسی کے ہیں!
اُسی کے پاس سے آئے!
اُسی جانب پلٹنا ہے!

ثمین صدف۔

Comments

Popular posts from this blog

THE MODERN SKEPTIC

Raising strong Muslims.

I am pained :