Skip to main content

باجی کا دوپٹہ



میری باجی اور میں بالکل ایسے ہیں جیسے یک جان دو قالب۔ یہ کہنا بھی غلط نا ہوگا کہ باجی کی خاطر میں نے کافی جسمانی صعوبتیں بھیبرداشت کیں۔ 

چھوٹے ہوتے ہوئے باجی مجھی کو آنکھ مچولی میں کس کر بھائی یا سہیلی کی آنکھ پر باندھ دیتییں تھیں۔ 

مجھی کو پھیلا کر سارے شہتوت چگتییں۔ 

کالج جاتے جاتے باجی نے میرے استعمال میں جو بدعات ایجاد کیں ۔ اُن کا حساب تو اللہ ہی اُن سے لے گا۔ رکشے کی ہر سواریمیں باجی مجھے بل دے کر تیار رکھتیں۔ کوئی انجانا موڑ کاٹا تو میں رکشے والے کے گلے کے گرد کسنے کے لئے تیار۔ وہ تو اللہ کا لاکھ لاکھشکر آج تک باجی کے ساتھ کسی رکشے والے کی غلط موڑ کاٹنے کی جرات نہیں ہوئی۔ 

زخم رِسے یا ناک۔ دونوں کو صاف رکھنے میں باجی کے کام سب سے پہلے میں ہی آیا۔ 

جتنے ٹوٹے پیسے ہوتے وہ باجی مجھی میں باندھ دیتیں۔ 

ایسا ہوا دار پیارا پیارا رشتہ تھا ہمارا۔ جب سے یہ موئے فیشن برینڈ آئے ہیں ۔ ایسی گلا گھونٹ لیریں نکالیں ہیں کہ آگا پیچھا تو کچھنا ڈھکیں مگر لہر لہر کر جنونی بیل پیچھے پڑوا لیں۔

نئی اور چھوٹی باجیاں میری جگہ اب ان لیروں کو پسند کرتی ہیں۔ 

مجھے سکھانے کے بہانے دو باجیاں آپس میں ہنس کر بات ہی کر لیتی تھیں۔ چھوٹے بچے نیچے سے بھاگ کر خوش ہوجاتے تھے۔اب تو ان موئی لیروں نے ایسا کام آسان کیا ہے ۔ نا سکھانے کی ضرورت نا استری کی محنت۔ کھونٹی سے گلے میں اور گلے سےکھونٹی پر۔ 

کیسے ایک لیر نے ساری تہذیب پر ہی پانی پھیر دیا۔ یہ موئے فیشن صرف ڈیزائن نہیں بدلتے ۔آوے کا آوا ہی اُلٹ دیتے ہیں۔ 

مجھے سر پر لپیٹتی تھیں باجی تو کتنی عزت تھی میری۔ اب جب سے یہ رومال کسے ہیں سروں پر باجیوں نے تو جیسے دل اور زبان بھیکس لئے اپنی ہی جنس کے لئے۔ 


رومال والی باجی اوپر سے نیچے جیسے ایکس رے کرتی ہیں لیر والی باجی کا سچی ایسا ایکسرے تو ایکسرے مشین نہیں کرتی ہوگی۔ توبہتوبہ۔ 


اب باجیوں میں رومالوں کی بھی گروہ بندیاں ہیں۔ رومال کے رنگ اور طریقے سے باجی کی شخصیت اور ہمدردیاں جھلکنے لگیں ہیں۔ 


بورڈ کی کتابوں پر رومالوں والی بچیاں دیکھ کر ایک صحافی بھائی کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ حکومت رومال والی باجیوں کی کھیپ تیار کرنےمیں لگی ہوئی ہے۔ سر پر ایک جیسے رومال ہوں تو عورتیں اور مرد کام زیادہ اچھے طریقے سے کریں گے نا ۔ دل میں اور زبان پر جوکچھ بھی ہو اُس سے حکومت کو کیا لینا دینا۔ 


صحافی بھائی کی فکر اتنی غلط بھی نہیں مگر راز کی بات اُن کو بھی نہیں پتا۔ کام نہیں بننا حکومت کاایسی کوششوں سے۔ باجیاں روماللے کر باجی نہیں رہتیں۔ بھائی جان بن جاتیں ہیں۔


باجی تو دوپٹّے میں ہی ملیں گی۔


صائمہ شیر فضل


Comments

Popular posts from this blog

On Cue:

Spell bound?  Qazi Shareeh was a a famous tabaai ( those who had the opportunity to sit with the Sahaba of our beloved prophet saw) appointed as the head of the judiciary in the time of Omer (RA). The fact that in the presence  and life of great figures like the Sahaba, Shareeh was appointed as a head judge is of significance. He had the courage to give judgments against the ruler of the time and both Hazrat Omer and Hazrat Ali (RA) agreed to his verdicts in their opponents favour.  This independence ofcourse came from a strong character. Honesty, courage and humbleness at both ends. It was very interesting to follow the confusion of the govt and the conflicting statements of the opposition over the NAB ordinance mess. The way amendments are dished out in our country is so amazing that one wonders weather 'writing the law' has become more important than the implementation?! According to the spokesperson the amendments will bring more 'clarity'. Hoping they can bring mor...

بڑائی

بڑائی! “مجھے نہیں سمجھ آتی  آپ ہر دفعہ مجھے ہی کیوں پیچھے ہٹنے کو کہتی ہیں۔ جب بانٹنا ہو میں ہی بانٹوں۔ جب چھوڑنا ہو میں ہی چھوڑوں۔ جب رکنا ہو میں ہی رکوں۔ آپ ہمیشہ صیح نہیں ہو سکتیں اماں۔ “ “ہر وقت دوسروں کو اتنی گنجائش بھی نہیں دینی چاہئے۔ میں ہر وقت نہیں رُک سکتا۔ لوگ غلط بھی ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح “ ظلم کا ساتھ دینا ہوتا ہے”! محمد غصے میں بولتا چلا جا رہا تھا اُس کو بالکل پتا نا چلا کہ حیا اُس کے اس جملے پر کتنا چونکی تھی اور کیسے اس جملے نے جیسے اُس کے لئے زماں و مکاں کے تمام حجابوں کو طے کرکے اُسے پھر سے ماضی کے اُسی لمحے میں پہنچا دیا تھا جس کو وہ اپنی دانست میں بھلا چُکی تھی۔ باجی کی شفیق اور فکرمند آواز پھر سے حیا کے کانوں میں گونجنے لگی۔ “حیا آخر کب تک ؟ آخر کب تک تم ظلم کا ساتھ دو گی؟ یہ اسلام نہیں ہے۔ ظالم کو  ظلم سے نا روکنا صبر نہیں ہے! صبر میں انسان عمل کرنا چھوڑ نہیں دیتا۔ ہر غلط سلط بات سہتا نہیں چلا جاتا۔ اصلاحِ حال بھی کرتا ہے۔ تم ان بچوں کو تباہ کر دو گی اس طرح کی زندگی سے۔ وہ نہیں جانتے صیح غلط کیا ہے۔ تم ماں باپ جو کرو گے وہی صیح غلط بن جا...

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔  اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی ...