لفظ



لفظ:

اک لفظ خود حجاب ہے
اک لفظ بے حجاب سا
تاثیر میں الگ الگ
اظہار میں جُدا جُدا
اک بے صبر، اک دلنشیں
اک ہے گماں ، دوجا یقیں
اک تخمِ بیداری بنے
دوجا بنے تخمِ بے خودی

خلوت میں جس کو نمو ملی
عزلت میں جس کی حیات تھی
قوت تھی جس میں نفوز کی
تطہیر کی، تعمیر کی
وہ لفظ اب نا پید ہے
مُو ہوم ہے ، مفقود ہے۔

ہر شے اور احساس کو
ہر نام ، ہر انسان کو
اظہار کی اب قید ہے
اس قید کا جو نام ہے
وہ "آزادیِ اظہار" ہے۔

الفاظِ حاظر میں کہاں وہ جان اب باقی رہی
 جو روح کا احساس تھی،جو قلب کا وجدان تھی

ہر لفظ ، ہر تحریر میں

لطافت سے بے اعتناعی ہے
اک سطحی سی صناعی ہے


الفاظ بھی بکتے ہیں اب
روح کا بھی مول ہے
کچھ بھی اس دور میں
اب کہاں انمول ہے۔

تو لفظ اپنے چن لو سب
کہ وقت بہت کم ہے اب
وہ چنو کہ جس کو ثبات ہو
وہ جو ابتداِ  دوام ہو
جسے
قانونِ کائنات میں
بقا ہو مکافات میں
کہ وقت بہت کم ہے اب
ہاں وقت بہت کم ہے اب !

ثمین صدف

Comments

Popular posts from this blog

THE MODERN SKEPTIC

Raising strong Muslims.

I am pained :