Skip to main content

آسان لفظوں میں:


جدید قومی ریاست اور فریج  


جدید دور کے ٹیکنالوجکل ڈٹرنزم (technological determinism) میں فریج کی اہمیت پر غور و فکر کیا جائے تو کچھ عجب نا ہوگا۔ یہفریج ایک گھر کی معیشت، معاشرت اور سیاست تینوں جہتوں میں  ایک موثر کردار ادا کرتا ہے۔ ( یقین نا آئے تو محلے کی باجی سےرجوع کریں)

کچن میں رکھا جائے تو اپنی مدد آپ اسکیم، ڈرائینگ روم یاکامن روم میں رکھ دیا جائے تو جاسوسی مہم، سونے والے کمروں کیراہدری میں تو  معاشی مفاہمت اور بیٹے،بہو کے کمر ے کے اندر تو صریح جنگی چال۔ 

خاندان کے پارلیمان میں فریج کے اس کردار کو جس نے سمجھ لیا تو گویا فوکو (foccault) کے مائی باپ نطشے (Nietzsch)اور فرائڈ(freud)کی انتشار پسند تنظیم کو سمجھ لیا۔ 

یہاں پر فریج ساسو ماں کے اقتدارِ اعلی (sovergnity) کا نشان ہے۔ جنگی چال مثالی اقتدار کی عدم موجودگی( absence of the ideal sovergein) کی دلیل اور معاشی مفاہمت اختیار کی سیال منتقلی  (non linear transfer of power) کا ثبوت۔ 


پاکستانی پارلیمان اور خاندانی پارلیمان میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ اللہ سبحان و تعالی کی ذات کو دونوں جگہ اقتدار اعلی تسلیم کرکے  بھُلا دیا جاتا ہے ۔ میڈیا ڈھول والے کی طرح ڈھول پیٹ کر پیسے لینے آجاتا ہے اور قوم مولوی صاحب کے اندھے، بہرے اورگونگے بندروں کی طرح پٹی باندھ کر گہری نیند سو جاتی ہے ۔


آخر میں اس سارے ڈھونگ کو جمہوریت کا قصور گردان کر بوٹ والی سرکار سب کو لائن سے کھڑا کر کے قومی ترانہ پڑھوا دیتیہے۔ 


اس تمام تماشے کے دورانصداقت، دیانت، امانت اور شجاعت جیسے آثارِ قدیمہ کو فریج کے اوپر والے فیریزر میں ذخیرہ کردیا جاتاہے تاکہ تھوڑا تھوڑا کرکے استعمال کیا جائے مگر افسوس کہ مرمت والے امپورٹڈ مستری یہ ذخیرہ اپنے ملک ایکسپورٹ کردیتے ہیںاور پھر ساری دنیا میں جاکر پاکستانی جمہوریت کی کنگالی کا ڈھول پیٹتے ہیں۔ 


اس تمام تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بالکل بے کار نا ہوگا کہ فریج نے جدید قومی ریاست کے استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 


صائمہ شیر فضل 





Comments

Popular posts from this blog

بڑائی

بڑائی! “مجھے نہیں سمجھ آتی  آپ ہر دفعہ مجھے ہی کیوں پیچھے ہٹنے کو کہتی ہیں۔ جب بانٹنا ہو میں ہی بانٹوں۔ جب چھوڑنا ہو میں ہی چھوڑوں۔ جب رکنا ہو میں ہی رکوں۔ آپ ہمیشہ صیح نہیں ہو سکتیں اماں۔ “ “ہر وقت دوسروں کو اتنی گنجائش بھی نہیں دینی چاہئے۔ میں ہر وقت نہیں رُک سکتا۔ لوگ غلط بھی ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح “ ظلم کا ساتھ دینا ہوتا ہے”! محمد غصے میں بولتا چلا جا رہا تھا اُس کو بالکل پتا نا چلا کہ حیا اُس کے اس جملے پر کتنا چونکی تھی اور کیسے اس جملے نے جیسے اُس کے لئے زماں و مکاں کے تمام حجابوں کو طے کرکے اُسے پھر سے ماضی کے اُسی لمحے میں پہنچا دیا تھا جس کو وہ اپنی دانست میں بھلا چُکی تھی۔ باجی کی شفیق اور فکرمند آواز پھر سے حیا کے کانوں میں گونجنے لگی۔ “حیا آخر کب تک ؟ آخر کب تک تم ظلم کا ساتھ دو گی؟ یہ اسلام نہیں ہے۔ ظالم کو  ظلم سے نا روکنا صبر نہیں ہے! صبر میں انسان عمل کرنا چھوڑ نہیں دیتا۔ ہر غلط سلط بات سہتا نہیں چلا جاتا۔ اصلاحِ حال بھی کرتا ہے۔ تم ان بچوں کو تباہ کر دو گی اس طرح کی زندگی سے۔ وہ نہیں جانتے صیح غلط کیا ہے۔ تم ماں باپ جو کرو گے وہی صیح غلط بن جا...

Raising strong Muslims.

A mother's quest: These are trying times for the Muslim ummah. Raising Muslim children in this age of fitan is not an easy task, especially when the fitan is of bloodshed and confusion. Unfortunately, being a Muslim is not that simple anymore. War and economic deterioration has made it difficult to follow Islam even in Muslim countries while many different issues have made it difficult in the West. This makes a parent’s job harder than ever.  The relationship between child and parent, is such that the choices we make for our children can be decisive in building their character. Since these are times when the Muslim ummah is in need of strong and productive people more than ever, what better way to do that than to raise children with strong characters filled with iman, tolerance, integrity and patience? We need to remember that children are a trust as well as a trial from Allah (subhanahu wa ta’la) for their parents in particular and society at large. They are...

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔  اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی ...