———————————
توازن عدل کی حسی صورت ہے۔ دیکھنا حس ہے۔ بلاوجہ دیکھنا بداخلاقی اور ان دیکھے کو پالینا بصیرت۔
بداخلاقی بہرحال اوزان کی ڈھلتی شکل ہے۔ اور اس کے ساتھ جتنی مرضی عبادت نتھی کردی جائے بہرحال ظلم ظلم ہی رہے گا اور عبادت کا لبادہ اُس کو عدل نہیں بنا سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم مسلمان اُمت میں دینی مسالک پر مبنی سیاسی گروہ بندیاں دیکھتے ہیں۔ “ہم” اور “وہ” کی یہ لکیر بھی “ہم” اور “وہ” نے باہم رضامندی سے کھینچی تاکہ طاقت کے بٹوارے میں اپنا حصہ چھین کر بھی حاصل کرنا جائز ہوجائے۔
رفاہ یونیورسٹی میں کام کرتے ہوئے ایک انتہائی دلچسپ فریم ورک پر کام کرنے کا ادھورا موقع ملا۔ اُس فریم ورک کا مقصد آنے والے ہر طالب علم کی دینی ، علمی اہلیت کو جانچ کر “صیح مسلمان ” بننے کا رخ دینا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ کام چھوڑنے کے بعد سیکھا کہ نبیٌ نے صیح کا پتا اس علم سے دیا کہ غلط کیا ہے۔ حدیث پوری یاد نہیں۔ مفہوم کچھ یوں ہے (حوالے کے لئے سیرت النبی کا فضائل اخلاق کے باب میں صداقت والا حصہ پڑھ لیں):
مومن سب کچھ ہوسکتا ہے پر جھوٹا نہیں ہوسکتا!
جھوٹ بولنا نا صرف عدم توازن ہے۔ جھوٹ بولنا زوال کی دلیل ہے۔ اب پتا نہیں اس جھوٹ اور دجل میں “صیح مسلمان “ کون بنے گا مگر یہ سیکھ لیا کہ جھوٹا مسلمان نہیں ہوسکتا ۔
صائمہ شیر فضل
Comments