بچپن میں ایک عینک ملا کرتی تھی۔ ساتھ میں کچھ کارڈز ملتے تھے۔ عینک میں دو رنگ ہوتے تھے۔ لال اور نیلا۔ جب عینک لگا کرکارڈز پر نظر ڈالتے تھے تو جیسے سب کچھ زندہ اور جاندار نظر آنے لگتا تھا۔
ہر عینک ایسے ہی انسان کی دنیا کو جاندار بناتی ہے۔
دھوپ میں کالے شیشے آنکھوں کو محفوظ رکھتے ہیں پر جب دھوپ نہیں ہوتی تو وہی شیشے ہر شے کو اندھیرے میں ڈبو دیتے ہیں۔
دیکھنے والے کیا دیکھنا چاہتے ہیں اس اختیار کا استعمال وہ اپنی عینک سے کرتے ہیں۔ تاریخ ایسی ہی دور اندیش اور حساس عینکوںسے دیکھی گئی اور دیکھنے والوں نے جب اپنی نظر کو الفاظ میں قید کیا تو گویا حقیقت کے ایک پہلو کو قید کیا۔
جب مارکسسٹ سارے مسائل کی جڑ انسانوں کے غیر مساوی نظام تقسیم کو گردانتے ہیں تو وہ بھی محض ایک پہلو کی بات کرتےہیں۔
جب سرمایہ دار منافع کی بڑھوتی کی خاطر عوام کو حصہ دار بنانے کی بات کرتے ہیں تو وہ بھی ایک پہلو کی بات کرتے ہیں۔
جب فیمنسٹ عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو وہ بھی ایک ہی پہلو پر مرکوز ہوتے ہیں۔
حقیقت ہمیشہ ایک پہلو سے زیادہ ہی ہوتی ہے۔ جس پہلو پر مرکوز ہوجائیں وہی زندہ رہتا ہے۔ اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہمیںپتا ہو کہ کب کب ان جزوی نظریات سے کام لینا ہے اور کب ان سب کے باہم ٹکراؤ کو عدل کے عدسے سے محدود کرنا ہے۔
صائمہ شیر فضل
Comments