انسانی نفسيات میں قلب اور معنی اکژ ایک ہوجاتے ہیں۔ انسان کی خوشی، غمی، فہم اور بصیرت تمام دراصل دل ہی کے معنوں میں شامل ہے۔ تاریخ کے سبق ضروری تو ہیں لیکن کافی نہیں۔ ہر واقعے کو اگر تاریخ کے پلڑوں میں تولا جائے تو انسان کے لیے عدل کرنا ناممکن ہوجائے۔ ٓافاقی پیمانے تاریخ کی قید سے ٓازاد ہوتے ہیں۔قدرت جب چاہے وقت اور زمانے کی مناسبت سے عدل کرنے والوں کو مناسب ہتھیاروں سے لیس کردیتی ہے۔ اس کے لیے صرف سچ بولنے اور سچ کا سامنا کرنے کی جرات شرط ہے۔
جارڈن پیٹرسن نفسيات کی دنیا کا ایک مشہور نام ہے۔ حال ہی میں اُن کا ایک لیکچر سننے کا اتفاق ہوا۔ لیکچر اُن کی کتاب
"12 rules for life"(زندگی کے لئے ۱۲ اصول) کا خلاصہ تھا۔ پیٹرسن کی کتاب کا آٹھواں اصول تھا "سچ بولیں یا پھر کم از کم جھوٹ نا بولیں"!
یہ اصول کامیاب اور بامقصد زندگی کی اساس ہے۔
ُپٰٹرسن نے ایک اور آسانی کی سہل پسند انسانوں کے لیے کہ کم از کم اپنی سچائی تو جی لو۔ دوسروں سے جھوٹ تو بولا ہی جاتا ہے مگر اس سے پہلے انسان خود سے جھوٹ بولتا ہے۔ اور ضدی انسان اگر طاقت ور ہو تو اپنے جھوٹ پر دوسروں کو یقین دلانے کی اسطاعت بھی رکھتا ہے۔ ضدی گروہ بندیاں وجود میں لانے کی اسطاعت بھی رکھتا ہے ۔جہاں سب اپنے اپنے جھوٹ پر بضد ہوجاتے ہیں ۔ ایسے ہی ضدی کو قرآن کریم طاغوت کا نام دیتا ہے۔
ہماری دنیا کے طواغیت آج بضد ہیں کہ اپنے ہی جیسے انسانوں کی زندگیاں بموں سے اُڑا کر۔ معصوم لوگوں کو اُن کی سچائی کی وجہ سے re-educate کرکے معاشرے میں چھوڑا جائے تاکہ جھوٹ کو کوئی جھوٹ کہہ نا پائے۔ اگر کسی معصوم مسلمان خاندان پر صرف اس لیے ٹرک گزار دیا جائے کہ وہ مسلمان تھے تو ساری دنیا مزمت کرکے اپنی ذمہداری سے فارغ ہوجائے اور مسلمانوں کو اسی طرح دنیا بھر میں جس کا جب دل کرے hate-crime کا شکار کرلے ۔
سچ تو یہ ہے کہ جب کچھ دن پہلے ایک اور خبر پڑھی کہ ایک اور چھوٹے سے دوسالہ بچے کی لاش اُسی طرح ساحل کنارے پڑی ملی جس طرح ۲۰۱۵ میں ملی تھی تو دل کو بہت زیادہ تکلیف ہوئی۔
عدل بھی سچے لوگ ہی قائم کر پاتے ہیں اور ہم مسلمان شائد اب بھی اپنے اپنے جھوٹ سے نکلنے کو تیار نہیں۔
صائمہ شیر فضل
Comments