لاشعور:


ماہرِ نفسیات کا کہنا ہے کہ انسانی  ذہن ایک ایسےآئس برگ کی  مانند ہے۔جو آدھے سے زیادہ پانی  میں ڈوبا ہوا ہے اور اُس کی نوک یا چوٹی  جو پانی سے باہر  نظر آ رہی  ہے، انسانی ذہن کے شعور کی نمائندگی کرتی ہے اور باقی ماندہ  آئس برگ جو ڈوبا ہوا ہےاور نظر نہیں آرہا  وہ انسانی ذہن کا وہ حصہ ہے جو لا شعور کہلاتا ہے۔ اس لا لا شعور کا بھی ایک اور مزید  حصہ ہے۔ جو تحت اشعور کہلاتا ہے۔
مزید کہتے ہیں کہ انسان کی شعوری شخصیت اور رویوں کا ۸۰%  دارومدار اسی لا شعور  پر  ہوتا ہے ۔
اس لا شعور کی تعمیر رحمِ مادر میں ہی شروع ہو جاتی ہے اور تقریباً ۷ سال کی عمر تک ایک پختہ بنیاد بن چکی ہوتی ہے۔
وہ تمام رویے/ احساسات جو ایک معصوم جان نے اپنے اندر جزب کر لیئے ہوتے ہیں اس کے لاشعور کا جز بن جاتے ہیں۔
اگر ماں با پ اور ارد گرد کے ماحول میں رنجش اور تناؤ کے احساسات عام ہیں ۔ زندگی کے معملات میں خود غرضی اور غصہ معمول ہیں تو یہ سب کچھ اس ننھے لا شعور میں  ذخیرہ ہورہا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ یہ ذخیرہ اوریاداشت جو اس کے اندر محفوظ ہے وہ فوری استعمال میں آئے۔
مثال کے طور پر اگر ماں یا باپ راہ چلتے فقیر کو دھتکاریں گے تو وہ رویہ بچے میں فیڈ ہوگیا۔ اب یہ اور بات ہے کہ ماحول ، تربیت اور اسکول سب اس ذخیرہ کو   استعمال کرنے کا کیا گر سجھاتے ہیں  او ر بچہ  خود کتنا سلیم طبع ہے۔اُس یادشات کا اظہار بھی  کسی منفی روے کی صورت  میں زندگی کے کسی بھی لمحے میں ہو سکتا ہے۔
آجکل کے دور میں رحمِ مادر میں پلنے والا بچہ بموں کے دھماکوں کی آواز پر اپنی ماں کے دل کی دھڑکن کو محسوس کرتا ہے تو اس کے لاشعور میں ان آوازوں کے ساتھ پریشانی فیڈ ہو جاتی ہے۔ یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ ہم اپنی اگلی نسلوں کو کیسی یادیں اور حافظے دے رہے ہیں۔
لا شعور کی حقیقت کو سمجھنے والے اس کی تربیت کے گر بھی جان جاتےہیں۔
مسلم شہزادیوں کی جب عصمت دری کی گئی تو ان کی  کوکھ سے جنم لینے والے بچے علماء بنے۔اس لیے کہ ان کی ماؤں نے اپنی بہادری اور عزم کو اپنے بچوں میں منتقل کیا۔ اپنے دکھ اور پریشانی کو طاقت میں بدلہ۔ یہ مشکل ضرور ہے مگر ممکن بھی ہے۔
بہرحال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے بچے کی عزت کریں۔ اسے انسان سمجھیں۔ انسان سمجھیں گے تو وہ انسان بن سکتا ہے۔ اپنے اور اس کے لا شعور کی تربیت پر بھی دھیان دیں۔
جس کے لا شعور میں رب کی پہچان اور رضا بس گئی اس کا اظہار انکسار اور عجز میں ضرور ہوگا اور اس کی آج ہماری اُمت میں بڑی قلت ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

THE MODERN SKEPTIC

Raising strong Muslims.

I am pained :