Skip to main content

نظریاتی اختلاف کا اصل مسئلہ

نظریاتی اختلاف کا اصل مسئلہ:


‎کسی بھی نظریے کا بنیادی مسئلہ اس امر میں نہیں کہ
‎وہ  جن حقائق سے بحث کرتا ہے وہ غلط ہیں کہ صحیح بلکہ اس کا بنیادی مسئلہ اس امر میں  ہے کہ ان حقائق سے بحث کرنے کے لیے جو طرز فکر اپنایا جاتا ہے وہ تخصیصی  ہے کہ کلی۔
‎اور چونکہ انسان کُل کا مکمل ادراک نہیں کر سکتا تو درداصل کوئی بھی انسانی نظریہ تب تک محدود رہے گا جب تک وہ ہدایت الٰہی کو اپنا اصل ماخذ نہ بنا لے۔
‎ہدایتِ الٰہی کو ماخذ بنانے کے بعد جو بھی اختلاف رونما ہو گا اس میں بہرحال اجتماعی خیر متحرک کرنے والے عناصر جب تک زیادہ رہیں گے تب تک انسان کا فکری ارتقاء ایک درست اور مستقل نہج پر جاری رہے گا۔
‎ایسی صورتِ حال  میں جب ماخذ درست اور مشترک ہو تو انسانوں میں نظریاتی تفاوت تعمیر فکر کا باعث بنتا ہے۔
‎دونوں طرز فکر یعنی تخصیصی اور کلی کے مظاہر میں تفاوت کا اظہار لطیف ہے۔ تخصیصی فکر کا اظہار و انحصار فرد کے مفاد اور ذوق پر ہو تا ہے۔ جس کی انتہا  انتشار ہے۔
‎فکرِ کُلی کا اظہار و انحصار افراد کے مفاد اور ذوق پر ہو تا ہے۔  جس کے نتیجے میں ایک خودکار فکری عمل جنم لیتا ہےجو انسانیت کی تعمیر اور ترقی کو ازخود جاری رکھتا ہے۔
انسان کی حقیقت کچھ ایسی ہے کہ حدوں میں رہتے ہوئے جہدِ مسلسل ایک صبر آزما کام ہے۔ اجتماعی فکر کا تعین کرنے اور اُس کو رخ دینے کی خواہش رکھنے والوں کو فکِرِ کُلی (افرا کے مفاد، ذوق اور زمانے کے اُتار چڑھاؤ کی پرکھ) کا حامل و متحمل ہونا پڑے گا۔
فکرِتخصیصی انسان کو اعتدال سے ہٹا کر حدوں کی طرف کھینچتی ہے۔ جزویات پر مرکوز رکھتی ہے۔
فکرِ کلی انسان کو ظاہری تدبیر و وسائل سے زیادہ مشیئت ربی کا فہم و توکل سکھاتی ہے۔ انسانی و مادی وسائل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ادراکِ حق کا یہ سفر اندرونی اجماع سے ظاہری اجماع میں ضرور وقوع پذیر ہوتا ہے۔
وقت بھی طے ہے، حد بھی طے ہے۔اور انسان:

‎انسان کا کام ہے ڈٹ جانا
‎ہر حق کی بات پہ جم جانا
‎اوزان تو رب کے ہاتھ میں ہیں
‎آفاق میں عادل وہ ہی ہے
‎انسان تو بس اِک بندہ ہے
‎اِک آلہ ، اِک کارندہ ہے
‎متاعِ کلاں کے کُل میں۔۔۔
‎معمولی سا اِک پرزہ ہے
‎جو اپنی جگہ جب جم جائے
‎تو اگلا پرزہ ہلتا ہے
‎یہ راز سمجھنے والا ہی
‎پھر عدل کے اِن کُل، پرزوں میں۔۔۔۔
‎اِک قابِل پرزہ بنتا ہے

 ص۔

Comments

Popular posts from this blog

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔  اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی ...

Hermeneutics and symbolism

Quran does not limit human experience with metaphor. It uses metaphor to expand his/her intellectual horizon but it uses real stories to limit the interpretation. Similarly the symbolism in Quran is not a mere metaphor. Every symbol has a reality but we are told by Allah ji to not try interpreting them in this world. The wisdom behind this is undoubtedly profound. Human reality cannot be based on allusions to something which no human has ever experienced thus it has to be based on something which is experienceable . Practicable and implementable. Such is the reality of prophetic examples in all three monotheistic religions.  It would be relevant to note here that lived experience is of vital importance but the lived experience of one individual cannot be generalised unless the creator and steerer of  all lived experiences chose that individual. That is why safeguarding the prophetic legacies and believing in the finality of prophet hood is vital today for those who choose to b...

آسان لفظوں میں:

اعلان:مندرجہ ذیل تحرير میں ایک غیر مسلم باجی کی تحقیق کو پسند کیا گیا ہے۔ جن جن کو لادین فکر اور انگریز کی غلامی کی جادوئی جکڑ کا خطرہ لاحق ہے وہ اپنے اپنے بلوں میں منہ دیے رکھیں اور پڑھنے سے اجتناب کریں ۔ خوفزدہ کے ایمان اور عقل دونوں میں موجود خرابی اور زیادہ ہوسکتی ہے۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالج کے زمانے میں اکثر دوست احباب میں ایک پنجابی مقولہ بولتے،سنتے تھے۔ "سوچی پیا تے بندہ گیا!"  یہ وہ زمانہ تھا جب ہر کام عموما کم  سوچ کر کئے جاتے تھا اسی لیے شائد کام ہو بھی جاتے تھے۔اس بات کو میرے سوچنے والے نظریاتی بہن بھائیوں اور باجیوں نے ہرگز دل پر نہیں لینا۔ آپ اپنی سوچ پر بالکل تالے نا ڈالیں۔ بس لوگوں اور خیالی دشمنوں کے بارے میں کم سو چیں تو انشااللہ آفاقہ ہوگا۔ایک غیر نظریاتی اور غیر مسلم باجی کی تحقیق  پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ باجی کا نام سوزن ہوئیکسیما ہے۔ اپنی کتاب "ویمن ہو تھنک ٹو مچ" (women who think too much) میں انھوں نے ریسرچ کی دانستہ کوشش سے یہ ثابت کیا کہ  باجیاں جو زیادہ سوچتی ہیں وہ زیادہ تر منفی ہی سوچتی ہیں ا...