Posts

باجی کا دوپٹہ

میری   باجی   اور   میں   بالکل   ایسے   ہیں   جیسے   یک   جان   دو   قالب۔   یہ   کہنا   بھی   غلط   نا   ہوگا   کہ   باجی   کی   خاطر   میں   نے   کافی   جسمانی   صعوبتیں   بھی برداشت   کیں۔   چھوٹے   ہوتے   ہوئے   باجی   مجھی   کو   آنکھ   مچولی   میں   کس   کر   بھائی   یا   سہیلی   کی   آنکھ   پر   باندھ   دیتییں   تھیں۔   مجھی   کو   پھیلا   کر   سارے   شہتوت   چگتییں۔   کالج   جاتے   جاتے   باجی   نے   میرے   استعمال   میں   جو   بدعات   ایجاد   کیں   ۔   اُن   کا   حساب   تو   اللہ   ہی   اُن   سے   لے   گا۔   رکشے   کی   ہر   سواری میں   باجی   مجھے   بل   دے   کر   تیار   رکھتیں۔   کوئی   انجانا   موڑ   کاٹا   تو   میں   رکشے   والے   کے   گلے   کے   گرد   کسنے   کے   لئے   تیار۔   وہ   تو   اللہ   کا   لاکھ   لاکھ شکر   آج   تک   باجی   کے   ساتھ   کسی   رکشے   والے   کی   غلط   موڑ   کاٹنے   کی   جرات   نہیں   ہوئی۔   زخم   رِسے   یا   ناک۔   دونوں   کو   صاف   رکھنے   میں   باجی   کے   کام   سب   سے   پہلے   میں   ہی   آیا۔   جتنے   ٹوٹے   پیسے   ہوتے   وہ   باجی   مجھی  

A new feminine at the heart of a communal spirit.

Human beings are not the only living beings who thrive in a sense of communal belonging. Its this very basic need to belong that begets relationships and society for us. The very first human communities can be traced to the earliest civilisations.  Toys, jewellery and handicrafts from Sumerian, Indus and Egyptian civilisations all are a physical representation of that sense of community and belonging. Women pulling water, animals pulling carts, water flowing and birds flying. To each image belongs a story, a moment, a feeling etched in history. To own and belong is a human need like food, water and health. Human beings have for long fought and made peace only for this need. To own a piece of land or to belong to one. To own wealth or to belong amongst the wealthy. To own another or to belong to another. It is this very capacity of a basic human need in overpowering human will to an extent that it becomes a drive that Allah swt commands us to practice 'adl'. A practice of  human

ثریا کا شرارہ، بنٹی کی بائیک اور اماں کا غیبت نیٹ ورک:

 "اماں آپ کا فون بج رہا ہے۔ اُٹھا لیں کوئی نئی مخبری ہوگی" بنٹی کرکٹ کا بیٹ لہراتا ہوا اماں کے فون کے پاس سے گزرا۔ سکرین پر آپا کا نام جگمگا رہا تھا۔ یہ  دیکھ کر بنٹی جلدی جلدی باہر بھاگا۔ اماں نے بنٹی کو جو اتنی تیزی سے باہر نکلتے دیکھا تو شدید غصہ آیا۔ ایسے بھاگا ہے جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ اماں نے جلدی سے فون اُٹھایا تو لائن پر ریحانہ تھی۔ "السلام و علیکم اماں ، کیسی ہیں؟" بیٹی کی آواز سن کر اماں کا تو جیسے دل ہی کھِل گیا۔ "بس ویسی ہی ہوں جیسے تیرے پچھلے فون پر تھی۔ اللہ کا شکر ہے۔ تو بتا آج اماں کیسے یاد آگئی ؟" "اماں ایسے تو نا کہیں۔ مجھے تو آپ ہر وقت یاد رہتی ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ سے ثریا کی خیر خبر لوں ۔ آج کل فیس بک پر میری نیوز فیڈ میں نظر ہی نہیں آتی۔ بلاک تو نہیں کردیا مجھے پچھلی بات پر"۔۔۔ریحانہ نے چھوٹتے ہی اینکوائری شروع کردی۔ "ارے بلاک کرنے کی کیا بات ہے۔ اطلاع ہی تو دی تھی تو نے ماں کو کہ سہلیوں کے پروفائیلز پر کیسی کیسی پوسٹس لائک کرتی ہے۔ ایسا بھی کیا کردیا تو نے۔ رُک جا تو میں اُس کا فون چیک کروں گی غسل خانے ج

آسان لفطوں میں :

 غزوہ تبوك کے دوران جب کھانے کی کمی ہونے لگی اور قحط پڑا تو نبیؐ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے پر تمام صحابہ کو اپنی بچی کچھی خوراک کو اکٹھا کرنے کا حکم دیا ۔ جس میں کوئی کھجور کی گھٹلیاں لایا تو کوئی روٹی کے ٹکڑے۔ پیارے نبیؐ نے اُس تمام رزق میں اللہ سے برکت کی دعا کرکے سب میں برابر بانٹ دیا۔ صحابہ نے کھجوروں کی گھٹلیاٰں چوس کر اوپر سے پانی پی لیا اور باقی تمام رزق بھی سیر ہوکر کھایا۔ اس طرح اُن کو سواری کے اونٹ بھی ذبح نا کرنے پڑے اور وقتی کمی کا خاتمہ بھی ہوگیا۔ یہ تمام برکت محض ایمان کی طاقت اور توحید کے بل بوتے پر حاصل ہوئی۔ (واقعے کا حوالہ: https://sunnah.com/muslim/1/45 ) آج کا انسان بھی ایسی کمیوں کا روز شکار ہوتا ہے۔اور ان کے خاتمے کے حل تلاش کرتا ہے۔  یو این او کے ایس ڈی جی گولز (sustainable development goals) میں ایک بہت اہم منزل تمام دنیا سے غربت کا خاتمہ ہے۔ اس منزل کو حاصل کرنے کے پیچھے جو افکار ہیں اُن کی بھی ایک باقاعدہ تاریخ ہے۔ فی الحال اُس تمام تاریخ کو لمحے بھر کے لیئے جانا مانا کرکے غربت کے خاتمے کے مشن پر غور کرتے ہیں۔  غربت اور  ہر قسم کی بیماری  کا ایک ظاہرہو

Patriarchal structures facilitating a specific feminist culture:

 Meaning has a context and each context has a basis. Its the basis that has to be strong enough to navigate through the suggestions to interpret meaning within the contours of truth. Truth has definite contours. Its not limited to circles, squares and pyramids. Patterns cannot define it. They can just channel its energy and that too only for a limited time. Denial and choice define the truth of this Universe for the human being. What you deny and  what you chose. What you are not and what you plan to be. What you resist and what you become. I have met very less women who deny and choose within the contours of truth and escape falling into the traps patriarchy sets for them. Patriarchal structures and institutionalisation is so deeply embedded in authoritarian cultures like ours that its near impossible to navigate towards the truth. The only autonomy which then remains for each is of his or her 'being' as answerable to none other but his/her creator because the structures submi

مل بیٹھے جب دوست یار:

  سین: سلیم صاحب کی بیٹھک میں سب بیٹھے حالات حاضرہ پر گفتگو کر رہے ہیں۔ “اسلام کی تو آپ بات ہی نا کریں۔ اسلام تو عام انسان کی زندگی میں ہے ہی نہیں۔ “” بیٹا جاؤ اپنی اماں سے کہو چار لوگوں کی چائے کا انتظام کردیں “ ۔ “ابا چائے کی پتی ختم ہے ۔ اماں نے آپ کو کہا تھا تو آپ نے کہا تھا آپ نہیں لا کر دے سکتے “ “ہشت!”۔ نظریاتی ابا کی ایک چپت پر بیٹے صاحب پردے کے پیچھے بھاگ جاتے ہیں۔ “ہاں تو صاحبو میں عرض کررہا تھا کہ اگر سب نماز پڑھنے لگ جائیں تو اس معاشرے کے تو روگ ہی ختم ہوجائیں۔ “ “ سچ کہتے ہیں آپ سلیم صاحب اور کوئی ان عورتوں کو سنبھالے جو حقوق کا رونا روتی ہیں”۔ امجد صاحب نے پاؤں پسارے۔ “آج پکوڑوں کا موسم ہے سلیم صاحب ۔ بھابھی سے کہیں چائے کے ساتھ پکوڑے بھی ہوجائیں۔ “ “کیوں نہیں ، کیوں نہیں! “ سلیم صاحب پردے کے پیچھے چلے جاتے ہیں ۔ “سنا ہے اب حکومت سارا نظامِ تعلیم یکساں کر رہی ہے۔ سب بچے ایک جیسی کتابیں پڑھیں گے۔ کل ہی بیٹی نے کتاب دکھائی پاکستان سٹڈیز کی۔ اُس میں ویمن ایمپاورنمنٹ کا سبق ڈالا ہوا تھا بے غیرتوں نے۔ اب ہماری عورتوں کو گھروں سے باہر نکالیں گے بے غیرت” ۔ جاوید صاحب نے جوش سے

Hermeneutics and symbolism

Image
Quran does not limit human experience with metaphor. It uses metaphor to expand his/her intellectual horizon but it uses real stories to limit the interpretation. Similarly the symbolism in Quran is not a mere metaphor. Every symbol has a reality but we are told by Allah ji to not try interpreting them in this world. The wisdom behind this is undoubtedly profound. Human reality cannot be based on allusions to something which no human has ever experienced thus it has to be based on something which is experienceable . Practicable and implementable. Such is the reality of prophetic examples in all three monotheistic religions.  It would be relevant to note here that lived experience is of vital importance but the lived experience of one individual cannot be generalised unless the creator and steerer of  all lived experiences chose that individual. That is why safeguarding the prophetic legacies and believing in the finality of prophet hood is vital today for those who choose to be on the