باجی کا دوپٹہ
میری باجی اور میں بالکل ایسے ہیں جیسے یک جان دو قالب۔ یہ کہنا بھی غلط نا ہوگا کہ باجی کی خاطر میں نے کافی جسمانی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ چھوٹے ہوتے ہوئے باجی مجھی کو آنکھ مچولی میں کس کر بھائی یا سہیلی کی آنکھ پر باندھ دیتییں تھیں۔ مجھی کو پھیلا کر سارے شہتوت چگتییں۔ کالج جاتے جاتے باجی نے میرے استعمال میں جو بدعات ایجاد کیں ۔ اُن کا حساب تو اللہ ہی اُن سے لے گا۔ رکشے کی ہر سواری میں باجی مجھے بل دے کر تیار رکھتیں۔ کوئی انجانا موڑ کاٹا تو میں رکشے والے کے گلے کے گرد کسنے کے لئے تیار۔ وہ تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر آج تک باجی کے ساتھ کسی رکشے والے کی غلط موڑ کاٹنے کی جرات نہیں ہوئی۔ زخم رِسے یا ناک۔ دونوں کو صاف رکھنے میں باجی کے کام سب سے پہلے میں ہی آیا۔ جتنے ٹوٹے پیسے ہوتے وہ باجی مجھی