Skip to main content

آسان لفطوں میں :

 غزوہ تبوك کے دوران جب کھانے کی کمی ہونے لگی اور قحط پڑا تو نبیؐ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے پر تمام صحابہ کو اپنی بچی کچھی خوراک کو اکٹھا کرنے کا حکم دیا ۔ جس میں کوئی کھجور کی گھٹلیاں لایا تو کوئی روٹی کے ٹکڑے۔ پیارے نبیؐ نے اُس تمام رزق میں اللہ سے برکت کی دعا کرکے سب میں برابر بانٹ دیا۔ صحابہ نے کھجوروں کی گھٹلیاٰں چوس کر اوپر سے پانی پی لیا اور باقی تمام رزق بھی سیر ہوکر کھایا۔ اس طرح اُن کو سواری کے اونٹ بھی ذبح نا کرنے پڑے اور وقتی کمی کا خاتمہ بھی ہوگیا۔ یہ تمام برکت محض ایمان کی طاقت اور توحید کے بل بوتے پر حاصل ہوئی۔ (واقعے کا حوالہ: https://sunnah.com/muslim/1/45 )

آج کا انسان بھی ایسی کمیوں کا روز شکار ہوتا ہے۔اور ان کے خاتمے کے حل تلاش کرتا ہے۔

 یو این او کے ایس ڈی جی گولز (sustainable development goals) میں ایک بہت اہم منزل تمام دنیا سے غربت کا خاتمہ ہے۔ اس منزل کو حاصل کرنے کے پیچھے جو افکار ہیں اُن کی بھی ایک باقاعدہ تاریخ ہے۔ فی الحال اُس تمام تاریخ کو لمحے بھر کے لیئے جانا مانا کرکے غربت کے خاتمے کے مشن پر غور کرتے ہیں۔ 

غربت اور  ہر قسم کی بیماری  کا ایک ظاہرہوتا  ہے اور ایک باطن ہوتا ہے۔ غربت کے باطن میں غربت کا خوف ہے۔ غربت کا خوف غربت کے اصل کو بناتا ہے۔ اگر خوف مٹ جائے تو ظاہری غربت کسی بھی قوم کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ سب سے پہلی رکاوٹ باطن سے آتی ہے۔ باطن اگر خوفزدہ ہے تو منکرِ توحید ہے۔ 

یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں آج تمام توحید پرست ادیان غربت کے خاتمے کو اس دنیا میں ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مابعد جدیدیت کے معاشرتی مسائل میں خوف کی نفسیات اور طاقت ایک باقاعدہ عنوان ہے۔ 

کیسے کمی کا خوف زیادہ کو ضرورت بناتا ہے۔ کیسے زیادہ کی چاہت طاقت کا رسیا بناتی ہے۔کیسے طاقت اپنا آپ منوانے کے لیے لوگوں کا وسائل کے ڈبوں میں بٹوارا کرکے اُن پر اپنا اختیار استوار کرتی ہے۔ تمام دینی اور سیاسی جماعتیں اس کھیل میں قوم کو مبتلا رکھ کے بس حصے کی لڑائی میں مصروف رہتی ہیں ۔ اسی لیے ایسے کام میں کبھی حصہ اور کوشش نہیں ڈالتیں  جس سے اُن کی طاقت میں کمی واقع ہو۔

اپنی کتاب میں ادیان کی طرف لوٹنے کے عمل کے بارے میں ارماںنڈو سیلواٹور , Armando Salvatore in Sociology of Islam کہتا ہے کہ  آج کا بعد از لادین معاشرہ جن مسائل کے حل کی تلاش میں ہے وہ حل اسلام (توحید اور ایمان )کی قدروں میں مل سکتے ہیں۔


صائمہ شیر فضل






Comments

Popular posts from this blog

On Cue:

Spell bound?  Qazi Shareeh was a a famous tabaai ( those who had the opportunity to sit with the Sahaba of our beloved prophet saw) appointed as the head of the judiciary in the time of Omer (RA). The fact that in the presence  and life of great figures like the Sahaba, Shareeh was appointed as a head judge is of significance. He had the courage to give judgments against the ruler of the time and both Hazrat Omer and Hazrat Ali (RA) agreed to his verdicts in their opponents favour.  This independence ofcourse came from a strong character. Honesty, courage and humbleness at both ends. It was very interesting to follow the confusion of the govt and the conflicting statements of the opposition over the NAB ordinance mess. The way amendments are dished out in our country is so amazing that one wonders weather 'writing the law' has become more important than the implementation?! According to the spokesperson the amendments will bring more 'clarity'. Hoping they can bring mor...

بڑائی

بڑائی! “مجھے نہیں سمجھ آتی  آپ ہر دفعہ مجھے ہی کیوں پیچھے ہٹنے کو کہتی ہیں۔ جب بانٹنا ہو میں ہی بانٹوں۔ جب چھوڑنا ہو میں ہی چھوڑوں۔ جب رکنا ہو میں ہی رکوں۔ آپ ہمیشہ صیح نہیں ہو سکتیں اماں۔ “ “ہر وقت دوسروں کو اتنی گنجائش بھی نہیں دینی چاہئے۔ میں ہر وقت نہیں رُک سکتا۔ لوگ غلط بھی ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح “ ظلم کا ساتھ دینا ہوتا ہے”! محمد غصے میں بولتا چلا جا رہا تھا اُس کو بالکل پتا نا چلا کہ حیا اُس کے اس جملے پر کتنا چونکی تھی اور کیسے اس جملے نے جیسے اُس کے لئے زماں و مکاں کے تمام حجابوں کو طے کرکے اُسے پھر سے ماضی کے اُسی لمحے میں پہنچا دیا تھا جس کو وہ اپنی دانست میں بھلا چُکی تھی۔ باجی کی شفیق اور فکرمند آواز پھر سے حیا کے کانوں میں گونجنے لگی۔ “حیا آخر کب تک ؟ آخر کب تک تم ظلم کا ساتھ دو گی؟ یہ اسلام نہیں ہے۔ ظالم کو  ظلم سے نا روکنا صبر نہیں ہے! صبر میں انسان عمل کرنا چھوڑ نہیں دیتا۔ ہر غلط سلط بات سہتا نہیں چلا جاتا۔ اصلاحِ حال بھی کرتا ہے۔ تم ان بچوں کو تباہ کر دو گی اس طرح کی زندگی سے۔ وہ نہیں جانتے صیح غلط کیا ہے۔ تم ماں باپ جو کرو گے وہی صیح غلط بن جا...

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔  اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی ...