Skip to main content

مل بیٹھے جب دوست یار:

 سین: سلیم صاحب کی بیٹھک میں سب بیٹھے حالات حاضرہ پر گفتگو کر رہے ہیں۔

“اسلام کی تو آپ بات ہی نا کریں۔ اسلام تو عام انسان کی زندگی میں ہے ہی نہیں۔ “” بیٹا جاؤ اپنی اماں سے کہو چار لوگوں کی چائے کا انتظام کردیں “ ۔
“ابا چائے کی پتی ختم ہے ۔ اماں نے آپ کو کہا تھا تو آپ نے کہا تھا آپ نہیں لا کر دے سکتے “
“ہشت!”۔ نظریاتی ابا کی ایک چپت پر بیٹے صاحب پردے کے پیچھے بھاگ جاتے ہیں۔
“ہاں تو صاحبو میں عرض کررہا تھا کہ اگر سب نماز پڑھنے لگ جائیں تو اس معاشرے کے تو روگ ہی ختم ہوجائیں۔ “
“ سچ کہتے ہیں آپ سلیم صاحب اور کوئی ان عورتوں کو سنبھالے جو حقوق کا رونا روتی ہیں”۔ امجد صاحب نے پاؤں پسارے۔ “آج پکوڑوں کا موسم ہے سلیم صاحب ۔ بھابھی سے کہیں چائے کے ساتھ پکوڑے بھی ہوجائیں۔ “
“کیوں نہیں ، کیوں نہیں! “ سلیم صاحب پردے کے پیچھے چلے جاتے ہیں ۔
“سنا ہے اب حکومت سارا نظامِ تعلیم یکساں کر رہی ہے۔ سب بچے ایک جیسی کتابیں پڑھیں گے۔ کل ہی بیٹی نے کتاب دکھائی پاکستان سٹڈیز کی۔ اُس میں ویمن ایمپاورنمنٹ کا سبق ڈالا ہوا تھا بے غیرتوں نے۔ اب ہماری عورتوں کو گھروں سے باہر نکالیں گے بے غیرت” ۔ جاوید صاحب نے جوش سے اپنی ران پر ہاتھ مارا۔
پردے کے پیچھے سے سلیم صاحب کا بیٹا منہ نکال کر جاوید صاحب کی طرف ہانک لگاتا ہے “ جاوید انکل سلمی باجی تو کہہ رہی تھیں آپ اُن سے نوکری کرنے کو کہہ رہے تھے کیونکہ آپ کی تنخواہ میں تو پکوڑے بھی نہیں بنتے”
“لاحول ولا قوتہ الا باللہ “۔ جاوید صاحب کا منہ سُرخ ہوجاتا ہے اور غصے سے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ “ میں نماز پڑھنے جارہا ہوں”۔
“ انکل باجی کو کچھ نا کہنا وہ تو اماں کو بتا رہی تھیں۔ میں نے تو تب سنا جب اماں اُن سے آپ کی چائے اور پکوڑوں کا سامان مانگنے گئیں تھیں۔”
سلیم صاحب پیچھے سے بیٹے کو پکڑ کر ایک چپل لگاتے ہیں اور وہ بلبلاتا ہوا بھاگ جاتا ہے۔
“ چلیں سب نماز پڑھنے چلیں۔ جماعت نکل جائے گی۔ “
پردے کے پیچھے سلیم صاحب کا بیٹا بلبلاتے ہوئے خود سے کہتا ہے۔
“ میں بھی ابا کی شکایت لگاؤں گا اللہ جی سے۔ اماں کو اور مجھے مارتے ہیں اور باقی سب کو نماز کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ اللہ میرا بھی ہے صرف ابا کا تو نہیں!”
صائمہ شیر فضل

Comments

Popular posts from this blog

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔  اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی ...

Hermeneutics and symbolism

Quran does not limit human experience with metaphor. It uses metaphor to expand his/her intellectual horizon but it uses real stories to limit the interpretation. Similarly the symbolism in Quran is not a mere metaphor. Every symbol has a reality but we are told by Allah ji to not try interpreting them in this world. The wisdom behind this is undoubtedly profound. Human reality cannot be based on allusions to something which no human has ever experienced thus it has to be based on something which is experienceable . Practicable and implementable. Such is the reality of prophetic examples in all three monotheistic religions.  It would be relevant to note here that lived experience is of vital importance but the lived experience of one individual cannot be generalised unless the creator and steerer of  all lived experiences chose that individual. That is why safeguarding the prophetic legacies and believing in the finality of prophet hood is vital today for those who choose to b...

آسان لفظوں میں:

اعلان:مندرجہ ذیل تحرير میں ایک غیر مسلم باجی کی تحقیق کو پسند کیا گیا ہے۔ جن جن کو لادین فکر اور انگریز کی غلامی کی جادوئی جکڑ کا خطرہ لاحق ہے وہ اپنے اپنے بلوں میں منہ دیے رکھیں اور پڑھنے سے اجتناب کریں ۔ خوفزدہ کے ایمان اور عقل دونوں میں موجود خرابی اور زیادہ ہوسکتی ہے۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالج کے زمانے میں اکثر دوست احباب میں ایک پنجابی مقولہ بولتے،سنتے تھے۔ "سوچی پیا تے بندہ گیا!"  یہ وہ زمانہ تھا جب ہر کام عموما کم  سوچ کر کئے جاتے تھا اسی لیے شائد کام ہو بھی جاتے تھے۔اس بات کو میرے سوچنے والے نظریاتی بہن بھائیوں اور باجیوں نے ہرگز دل پر نہیں لینا۔ آپ اپنی سوچ پر بالکل تالے نا ڈالیں۔ بس لوگوں اور خیالی دشمنوں کے بارے میں کم سو چیں تو انشااللہ آفاقہ ہوگا۔ایک غیر نظریاتی اور غیر مسلم باجی کی تحقیق  پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ باجی کا نام سوزن ہوئیکسیما ہے۔ اپنی کتاب "ویمن ہو تھنک ٹو مچ" (women who think too much) میں انھوں نے ریسرچ کی دانستہ کوشش سے یہ ثابت کیا کہ  باجیاں جو زیادہ سوچتی ہیں وہ زیادہ تر منفی ہی سوچتی ہیں ا...