Skip to main content

ثریا کا شرارہ، بنٹی کی بائیک اور اماں کا غیبت نیٹ ورک:

 "اماں آپ کا فون بج رہا ہے۔ اُٹھا لیں کوئی نئی مخبری ہوگی"

بنٹی کرکٹ کا بیٹ لہراتا ہوا اماں کے فون کے پاس سے گزرا۔ سکرین پر آپا کا نام جگمگا رہا تھا۔ یہ  دیکھ کر بنٹی جلدی جلدی باہر بھاگا۔

اماں نے بنٹی کو جو اتنی تیزی سے باہر نکلتے دیکھا تو شدید غصہ آیا۔ ایسے بھاگا ہے جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ اماں نے جلدی سے فون اُٹھایا تو لائن پر ریحانہ تھی۔ "السلام و علیکم اماں ، کیسی ہیں؟"

بیٹی کی آواز سن کر اماں کا تو جیسے دل ہی کھِل گیا۔ "بس ویسی ہی ہوں جیسے تیرے پچھلے فون پر تھی۔ اللہ کا شکر ہے۔ تو بتا آج اماں کیسے یاد آگئی ؟"

"اماں ایسے تو نا کہیں۔ مجھے تو آپ ہر وقت یاد رہتی ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ سے ثریا کی خیر خبر لوں ۔ آج کل فیس بک پر میری نیوز فیڈ میں نظر ہی نہیں آتی۔ بلاک تو نہیں کردیا مجھے پچھلی بات پر"۔۔۔ریحانہ نے چھوٹتے ہی اینکوائری شروع کردی۔

"ارے بلاک کرنے کی کیا بات ہے۔ اطلاع ہی تو دی تھی تو نے ماں کو کہ سہلیوں کے پروفائیلز پر کیسی کیسی پوسٹس لائک کرتی ہے۔ ایسا بھی کیا کردیا تو نے۔ رُک جا تو میں اُس کا فون چیک کروں گی غسل خانے جاتی ہے تو"۔ اماں نے بھی نئی ٹھانی۔

"سچ کہہ رہی ہو اماں، میں ملک سے باہر بیٹھ کر اور کر بھی کیا سکتی ہوں ۔ اماں یہ بنٹی پر بھی اپنی نظر رکھیو۔ بائیک کی تصویریں ڈالی ہوئی تھیں پروفائیل پر  اور نیچے دوست کہہ رہے ہیں سیر پر کب لے کر جائے گا۔ اماں کوئی پتا نہیں یہ فیس بک پر لڑکے بھی لڑکے ہی ہیں کہ لڑکیاں ہیں۔ دھیان رکھیو"

"اچھا اب تو زیادہ دماغ نا کھا میرا۔ ایسا نہیں میرا بنٹی۔ تو بھی تو روز اپنا ہر نیا ڈنر سیٹ نکال کر کھانا سجا کر تصویریں ڈالتی ہے۔ کیا ریسٹورانٹ کھولنے لگی ہے؟ ہر بات پر تیرا دماغ اُلٹا ہی چلتا ہے۔ ویسے بھی میرا خبر رساں نیٹورک تیرے فیس بک سے بہتر ہے۔ تیرے ابا کی جرات نہیں مجھے بتائے بغیر دوستوں سے ملنے جائیں ۔ دونوں ماسیاں اُن کے دوستوں کے گھر بھی جاتیں ہیں۔ سلیم صاحب اور جاوٰید صاحب کی بیبیاں تو میری ہی طرف کلاس میں آتی ہیں"

"اماں سچی یہاں پر تو ایسا کوئی سسٹم چل ہی نہیں سکتا۔ یہ بھی اپنے ملک کی ہی برکتیں ہیں۔ ایسی آزدیاں پردیس میں کہاں، ویسے تو فیصل کی عادت اچھی ہے مگر کبھی کبھی بڑا دل گھبراتا ہے اللہ جانے کہاں سے آرہے ہیں مجھے کیا پتا، خبر رکھنے کا کوئی طریقہ ہی نہیں۔ یہ موئی انگریزنیاں نا خود اپنے شوہروں کی خبر رکھتی ہیں نا اُن کو اِن کی کوئی خبر" ریحانہ نے شکوہ کیا۔

"تو ٖفیصل کا فون ضرور چیک کیا کر جب وہ سو جاتا ہے" اماں نے نیک مشورہ دیا۔

"لو اماں اب ایسی بھی بے وقوف تھوڑا ہوں میں۔ کیمرہ بھی چیک کرتی ہوں گاڑی والا" ریحانہ نے شیخی بھگاری۔

آپا سانس بھی لے لیا کرو کبھی کبھی۔ تمھارے جیسی غلطی دو بار نہیں کریں گے فیصل بھائی"۔ بنٹی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اماں اور آپا کی گفتگو پر تبصرہ کیا۔اماں نے دور سے ہی ایک چپل بنٹی کی طرف پھینکی جِِسے کمال خوبی سے ڈاج کرکے بنٹی کچن میں چلا گیا۔

"بدتمیز نا ہو تو۔ تو برا نا منائیو ریحانہ۔ اس کو عقل نہیں " اماں نے بیٹی کا دل رکھنے کی کوشش کی۔

"اماں اس کو چھوڑ اصل بات سُن۔ کل ننھی خالہ کی بیٹی رقیہ کی کال آئی تھی۔ کہہ رہی تھیں ثریا میں بڑا ٹیلنٹ ہے۔ گلابی شرارہ بڑا پیارا لگ رہا تھا۔ میں تو کچھ بولی ہی نا۔ بس ہاں ہوں کردی۔ اب بولتی بھی کیا جب پتا ہی نہیں کون سے شرارے کی بات ہورہی ہے۔ بس اماں پھر جو میں نے فون رکھا تو کال پر کال ملائی ۔ ثریا کی جتنی سہلیوں کی بڑی بہنوں کو میں جانتی تھی سب سے کیسے کیسے ٹیڑھی بات کی کہ کچھ تو پتا چلے۔ آخر میں جو پتا چلا تو سچی میرا تو دل ہی ہل گیا۔ اماں یہ ثریا نے اپنا ڈریم شرارہ ڈریس ڈیزائین کرکے کسٹم سیٹننگ پر سہلیوں کے ساتھ شیئر کیا۔ دیکھ اماں کیسے پر نکل آئیں ہیں آپ کی لاڈلی کے۔ نظر رکھیو۔ کہیں پہن کر نکل ہی نا جائے کہیں۔ جین کے پیچ لگائے ہوئے تھے شرارے میں اور سچی قمیض کی لمبائی صرف پینتیس انچ! لاحول ولا قوة!" ریحانہ نے داستان سنائی۔

"توبہ توبہ، یہ کیسے پتا نا چلا مجھے۔ ہائے ہائے، جین کے پیچ۔ میرے مولا! " اماں کا تو سانس ہی جیسے رُک گیا۔ بنٹی نے کچن سے جھانکا۔ "اماں سانس لے لو۔۔۔، آپا ثریا کو بھی کال کر لیا کرو دنیا کو کرنے سے پہلے اور اماں آپ کی ہی بیٹی ہے ثریا۔ اسائینمنٹ تھی اُس کی ٹیکسٹائیل کی ۔ فیوزن کی کوشش کرہی تھی وہ۔ اتنی پاکٹ منی نہیں دیتی آپ کہ وہ بنا ہی لے وہ ڈریس"۔ اس دفعہ اماں کا جوتا سیدھا جا کر بنٹی کی ٹانگ پر لگا۔ سہلاتا ہوا کہنے لگا: 

"ڈبوئے گا اماں کو یہ غیبت نیٹ ورک"


صائمہ شیر فضل




Comments

Popular posts from this blog

On the Concept of haya and hijab in Islam.

THE COAL MINE OR THE STAR STUDDED SKY:                                                                                                                        Every deen has an innate character. The character of islam is modesty.” Al Muwatta 47.9 The mania of emancipating the Pakistan woman from the “alleged restraints “of religion and custom seems to increase with every passing day. The solution it s...

ON RESPONSIBILITY!

The seemingly inconsequential fly buzzed around incessantly from one nose to another. Some were totally oblivious to its existence, Some bore its buzzing with a somewhat irritated expression while others shooed it away with a wave of their hand. Eventually,  it dived into a teacup. All hell broke loose. “Who let the fly in?”, “What a mess”, “Such a crappy building”, “Who left the window open?” “Who opened the window?”, “Why can’t you put a lid on your cup?”, “Why don’t we have fly screens for these doors and windows?”, “Why don’t we have a fly repellent?” A guy sitting on the far end folded his magazine and squatted the fly as soon as it landed on his desktop. That was ‘The End’ for the fly. (inspired from a real-life scene) We can roughly categorise the two kinds of behaviours/personalities described in the scenario above as ‘reactive’ and ‘proactive’. Out of these two our people fall into the ‘reactive’ category. A nation of reactive individuals who are not willing to...

The truth unveiled!

VALENTINE’S DAY The truth unveiled 'Every deen has an innate character. The character of Islam is modesty.' Al Muwatta 47.9 HOW IT STARTED: Like most Christian festivals, the origin of Valentine’s Day also lies in the pagan Rome. In ancient Rome young men and women used to celebrate this festival where the women would write love letters and throw them in a huge pot. Then the men would choose their partners through lottery and would court (relationship before marriage) the girl whose letter came in their hands. (Webster’s family encyclopedia). According to the encyclopedia this festival has no direct or indirect link to the life of Saint Valentine (269 A.D). To make Christianity more popular and acceptable among the pagan masses, the Christian clergy added this festival to Christianity by celebrating this day as Saint Valentine’s Day. The myths regarding Saint Valentine giving his life for the sake of love and others are all false. WHERE DO WE ST...