Posts

آسان لفظوں میں:

  آسان   لفظوں   میں :  اُنّیس سو پچاس میں ہٹنگٹن کے بیانیے نے مسلمانوں میں ایک جوابی لہر پیدا کردی۔ ہر طرف بیانیے کا جواب دینا عین اسلام ہوگیا۔ نا صرف یہ اُس بیانیے میں اسلام کو باقی ساری دنیا کا دشمن بنا کر مسلمان خود بھی خوش تھے۔ کچھ عقلمند لوگوں کو یہ بھی سمجھ آئی کہ اس طرح تو ہٹنگٹن کے بیانیے کو مزید جمنے کی جگہ مل رہی ہے مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ہمارے جوشیلے نظریہ دان اُس وقت تک اپنے خوف کو پوری اُمت میں پھیلا چکے تھے اور ہوا وہی جو ہٹنگٹن نے کہا تھا۔ اب پھر بالکل وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ ہمارے نظریہ دانوں کا ہر بیانیہ جوابی ہوتا ہے اور خوفزدہ ہوتا ہے۔ یہ دونوں الفاظ اس لئے کیونکہ توحید کا بیانیہ تو موجود ہے ۔ اُس کے لئے خوفزدہ ہونے کی ضرورت تو ہے ہی نہیں۔ خوف تب لاحق ہوتا ہے جب حقیقت سے زیادہ بیانیوں کو بہتر کرنے پر توجہ ہو۔ ایمان تو اپنا بیانیہ آپ بناتا ہے۔ اور حق کا بیانیہ تو پہلا ہوتا ہے۔ جوابی تو نہیں۔ ہیگل کے فلسفے نے جس طرح ڈاکٹر جیکئل اور مسٹر ہائڈ والے بہروپ کو ہماری معاشرت کا جواز بنایا۔ ہم نے اُس سے بڑھ کر اُس کو اپنا ایمان اور اصول بنا لیا۔ اس وقت بھی تمام نظ

On Cue

  As a pakistani it becomes quite inevitable not to ignore whats happening right next door. I had an Afghani friend as a child and I remember she often dropped in to have breakfast with our family. I loved her confidence and we played a lot. Its been long since I last saw her. We were just five or six then. Fast forward 35 years and I see similiar innocent afghan faces in Pakistan. Refugees crossing over maybe or have already crossed over. As a layman with only text book knowledge of afghan crisis and our relationship with the country I never found them to be as backward as depicted in most western documentaries. They had a society quite similar to that in Syria, Egypt and Lebenon before war and dictatorship ruined all these countries. All that is always discussed about Afghanistan is mostly about who won and who lost. The way we talk about them also just makes them collateral damage. When I read the religious zealots claiming the Taliban take over as victory at last I feel empty and

گول روٹی پدرسرانہ جکڑ اور میری باجی : ( آزادی سپیشل )

Image
  جی   یہ   ایک   بالکل   حقیقی   داستان   ہے۔   اُس   روٹی   کی   جس   کو   عشق   میں   سخت   چوٹ   لگی   جب   اُس   کو   بنانے   والے   پیارے   پیارے   ہاتھ احتجاجی   مارچوں   میں   اُس   کو   بدنام   کرنے   میں   مصروف   ہوگئے۔   روٹی   کا   بیان  :  میرا   کیا   قصور۔   باجی   نے   میرے   ساتھ   اچھا   نہیں   کیا۔   اُن   کے   سارے   مکے   جو   وہ   آفس   سے   مجھے   آکر   مارتی   تھیں   ،   اُن   کا   میں   نے   کبھی برا   نہیں   منایا۔   میرا   ہر   سڑا   سرا   جو   اُن   کے   ابا   شوق   سے   کھاتے   تھے   ۔   میرا   ہر   کچا   کنڈا   جو   اُن   کی   اماں   خاموشی   سے   کھا   لیتی   تھیں۔   کسی بھی   بات   کا   لحاظ   نا   کیا   باجی   نے۔   سچی   بڑی   گہری   چوٹ   کھائی   میں   نے   محبت   میں۔   اس   سے   بہتر   تو   وہ   تندور   والا   ہے   جس   نے     مجھے   اُڑاتے   اُچھالتے   میرے   سارے   کس   بل   نکال   دیے   ۔   اُس   نے   مجھے   ایسے   سارے زمانے   میں   تو   بدنام   نا   کیا   نا۔   آج   میرا   بھی   آپ   سے   سوال   ہے   باجی !  آپ   جب   مجھے   بیلنے   سے   گول  

میاں مٹھو کی اُڑان:

Image
  میاں مٹھو اپنے پنجرے کی خوبصورتی پر بہت نازاں رہتے تھے۔ ایک دن بی مانو وہاں سے گزری تو اُس کو اترا کر کہا    "دیکھو تو! ٓا ہا! میرا محل تو دیکھو"! بی مانو، ذرا بھی موڈ میں نا تھیں ۔ "اخاہ، ہم کیوں دیکھیں؟"،  دم اُٹھائی، کان پُھلائے اور یہ جا وہ جا۔ میاں مٹھو ٹھہرے غصیلے اور پھرتیلے ۔ جھٹ صدا لگانی شروع کر دی :  "مِٹھو چوری کھائے!" "مِٹھو چوری کھائے" مِٹھو چوری کھائے" عالیہ بھاگی بھاگی آئی ۔ اور مِٹھو کو دیکھ کر بولی " مِٹھو چوری کھائے یا مِٹھو لوری گائے؟" مِٹھو تنک کہ بولا "مٹھو چوری کھائے" بس پھر عالیہ نے جلدی سے مٹھو کو چوری ڈالی ۔ چوری چگ کے مٹھو میاں پھول گئے۔ جب مٹھو میاں پھول کر چلتے تو اُن کی دم میں عجب سی اکڑاہٹ سَرک آتی۔ اگلے دن مٹھو میاں اپنے پنجرے میں گشت لگا رہے تھے ۔ سامنے والی کھڑکی میں ایک فاختہ  آبیٹھی۔ بی فاختہ کی چونچ میں دانہ تھا۔ پروں پر پانی کے قطرے چمک رہے تھے۔ بی فاختہ نے بیٹھ کر جو دانہ کھانا شروع کیا تو میاں مٹھو کو بہت برا لگا۔ "دیکھو تو! کیسے میرے محل کے پاس بیٹھیں ہیں۔ نا میرے محل کو

آسان لفظوں میں :

Image
  شطرنج   کی   بساط   میں   ہر   مہرے   کے   پاس   انتخاب   کے   لئے   دو   ہی   گنجائشیں   ہوتی   ہیں۔   سیاہ   یا   سفید۔   غلامی     فرض   اور   ہار   جیت   مقدر !  رب   کائنات   کی   دنیا   شطرنج   کی   بساط   نہیں۔   یہاں   سیاہ   اور   سفید   الگ   نہیں   ایک   دوسرے   میں   پیوسط   ہیں   ۔ حسن   عدل   لازم     اصول ہے   ۔ اطاعت   طرز  ہے۔ طریقت   کے   غلام   انسانوں   کی   بادشاہی   میں  شطرنج کے  مہرے   بن   جاتے   ہیں۔   ہر   قدم   ایک   چال   اور   ہر   حرکت   ایک   وار۔   سیرت   میں   بالکل   شروع   ہی   میں   جس     جگہ   نبی ٌ     کے   چہرہ   مبارک   کا   ذکر   ملتا   ہے۔   اُس   کے   بالکل   قریب   ہی   اُن   کی   چال   کا     ذکر بھی   ملتا ہے۔   اُن   کے   قدم   ایسے   مظبوطی   سے   اُٹھتے   تھے   جیسے     کسی   بلندی   سے   اترتے   انسان   کو   ڈھلان   پر   رکھنے   پڑتے   ہیں۔ اُنٌ   کے   جسم   کا   جھکاؤ   آگے   کی   طرف   ہوتا   تھا۔   جس   نے   کبھی   اسطرح   چلنے   کی   کوشش   کی   ہوگی   اُسے   اندازہ   ہوگا   کہ   اس   حالت   میں انسان   کا   جسم   جلد   تھکاوٹ  

On Cue:

Image
The unanimous demand of PTI, PMLN and PPP women MNA's for public hanging of rapists is a flicker of hope that sanity can still prevail in the Pakistani senate and all has not been lost yet. There comes a time in societal evolution when managing the effect ascertains the cause. Such is the condition of our deteriorating societal values and morals. The debate on what's right and what is wrong is so sacred and valuable to our ideologues that its practice conveniently evades their moral sensors. The fact that whether we should be punishing rape or not is still a debate goes on to show the futility of education and intellect in our pseudo religious cum feudal setup.  This said, 'hyper sexualised' depictions of women remain as a constant threat to any semblance of sanity or normalcy. Corporations have to stop selling female bodies to market their products. Why does freedom of expression and innovation dare not meddle with such an objectified 'exposure' ? Doesn't t

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔  اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی