میاں مٹھو کی اُڑان:

 


میاں مٹھو اپنے پنجرے کی خوبصورتی پر بہت نازاں رہتے تھے۔ ایک دن بی مانو وہاں سے گزری تو اُس کو اترا کر کہا    "دیکھو تو! ٓا ہا! میرا محل تو دیکھو"!

بی مانو، ذرا بھی موڈ میں نا تھیں ۔

"اخاہ، ہم کیوں دیکھیں؟"،  دم اُٹھائی، کان پُھلائے اور یہ جا وہ جا۔

میاں مٹھو ٹھہرے غصیلے اور پھرتیلے ۔ جھٹ صدا لگانی شروع کر دی : 

"مِٹھو چوری کھائے!"

"مِٹھو چوری کھائے"

مِٹھو چوری کھائے"

عالیہ بھاگی بھاگی آئی ۔ اور مِٹھو کو دیکھ کر بولی " مِٹھو چوری کھائے یا مِٹھو لوری گائے؟"

مِٹھو تنک کہ بولا "مٹھو چوری کھائے"

بس پھر عالیہ نے جلدی سے مٹھو کو چوری ڈالی ۔

چوری چگ کے مٹھو میاں پھول گئے۔

جب مٹھو میاں پھول کر چلتے تو اُن کی دم میں عجب سی اکڑاہٹ سَرک آتی۔

اگلے دن مٹھو میاں اپنے پنجرے میں گشت لگا رہے تھے ۔ سامنے والی کھڑکی میں ایک فاختہ  آبیٹھی۔ بی فاختہ کی چونچ میں دانہ تھا۔ پروں پر پانی کے قطرے چمک رہے تھے۔ بی فاختہ نے بیٹھ کر جو دانہ کھانا شروع کیا تو میاں مٹھو کو بہت برا لگا۔

"دیکھو تو! کیسے میرے محل کے پاس بیٹھیں ہیں۔ نا میرے محل کو پسند کیا ، نا مجھے سلام!"

"اے بی فاختہ، کدھر ٓا نکلیں؟ خود  ہی میں گم ہو ۔ گھر والوں کو سلام تو کر لو!"

بی فاختہ نے ندامت سے میاں مٹھو کو دیکھا اور کہا " سچ کہتے ہو طوطے میاں۔ بڑی محنت سے دانہ ملا تھا۔ سو سوچا سکون سے کسی ایسی جگی بیٹھ کر کھاوٰں جہاں چھینا جھپٹی کا اندیشہ نا ہو تو تمھیں نا دیکھ پائی اور سلام کرنا بھول گئی"۔

"یہ سن کر میاں مٹھو کی دُم کا خم نرم پڑ گیا۔ "اچھا اچھا، چلو کوئی بات نہیں!"

یہ بتاو، ہمارا محل کیسا لگا ؟"

 فاختہ بڑی حیران ہوئی۔ 

"طوطے میاں یہ کیسی باتیں کرتے ہو؟ کون سا محل؟ کہیں تم اپنے لوہے کے پنجرے کو محل تو نہیں سمجھ بیٹھے؟"

لو جی ۔ بی فاختہ کا یہ کہنا تھا اور  میاں مٹھو کا ایک ایک پر اکڑ سا گیا۔ ساے جسم کے پر پھول گئے۔ بس پھر  کیا تھا مٹھو میاں ایسے پھڑ پھڑائے، ایسے پھڑ پھڑائے کہ سارا پنجرہ ہلنے لگا۔ 

"مٹھو چوری کھائے"

"مٹھو چوری کھائے"

مٹھو چوری کھائے"


چیخے میاں مٹھو۔ بی فاختہ تو ایسا شور سن کر پھُر سے اُڑ گئی۔ بس پھر کیا تھا عالیہ آئی اور مٹھو میاں سے پوچھا :

"مٹھو چوری کھائے یا مٹھو لوری گائے"

مٹھو میاں تو آپے سے باہر تھے۔ کچھ بول ہی نا پائے۔ بس پھڑ پھڑائے جائیں۔ 

عالیہ نے کہا "لگتا ہے مٹھو میاں آپ کے پر آپ کو تنگ کر رہے ہیں۔ اس پنجرے میں ان کا کیا کام۔ رُکیں میں قینچی لاتی ہوں اور آپ کے پر کاٹ دیتی ہوں۔ پھر آپ کو آرام آجائے گا"۔ یہ کہہ کر عالیہ بھاگی قینچی لینے۔

ادھر مٹھو میاں کو تو بے تحاشا غصہ تھا اور اب پر کاٹنے کا سنا تو پریشانی بھی ہوئی۔ عالیہ نے میرے پر کاٹ دیئے تو پھر تو میں کبھی بھی نا اُڑ  پاوٗں گا"۔ یہ سوچنے کی دیر تھی کہ فیصلہ آسان ہوگیا۔

جیسے ہی عالیہ نے پنجرے کا دروازہ کھولا۔ مٹھو میاں نے پورے پر کھولے اور اُڑان بھری۔ پہلی کوشش میں تو لحظہ بھر کو ڈگمگائے۔ مگر آخر کو طوطے تھے۔ پروں نے سنبھال لیا اور ایک منٹ کے اندر اندر میاں مٹھو کھڑکی سے باہر نیلے آسمان میں پرواز کر رہے تھے۔

عالیہ تو حيران ہی رہ گئی۔ کچھ دیر تو کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی اور پھر ٹھنڈی آہ بھر کر اوپر والے بڑے پنجرے سے ایک اور طوطے کو نکال کر میاں مٹھو کے پنجرے میں ڈالنے چل پڑی۔ چوری بہت زیادہ تھی نا اور پھر طوطے نا قید کرتی تو لوری کون سناتا؟!

مٹھو میاں نے تو آزادی پسند کی۔ 

آپ کو کیا پسند ہے؟


صائمہ شیر فضل


ننھے منوں کے لیے







Comments

Popular posts from this blog

THE MODERN SKEPTIC

Raising strong Muslims.

I am pained :