Skip to main content

آسان لفظوں میں:

 آسان لفظوں میں



اُنّیس سو پچاس میں ہٹنگٹن کے بیانیے نے مسلمانوں میں ایک جوابی لہر پیدا کردی۔ ہر طرف بیانیے کا جواب دینا عین اسلام ہوگیا۔ نا صرف یہ اُس بیانیے میں اسلام کو باقی ساری دنیا کا دشمن بنا کر مسلمان خود بھی خوش تھے۔
کچھ عقلمند لوگوں کو یہ بھی سمجھ آئی کہ اس طرح تو ہٹنگٹن کے بیانیے کو مزید جمنے کی جگہ مل رہی ہے مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ہمارے جوشیلے نظریہ دان اُس وقت تک اپنے خوف کو پوری اُمت میں پھیلا چکے تھے اور ہوا وہی جو ہٹنگٹن نے کہا تھا۔
اب پھر بالکل وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ ہمارے نظریہ دانوں کا ہر بیانیہ جوابی ہوتا ہے اور خوفزدہ ہوتا ہے۔ یہ دونوں الفاظ اس لئے کیونکہ توحید کا بیانیہ تو موجود ہے ۔ اُس کے لئے خوفزدہ ہونے کی ضرورت تو ہے ہی نہیں۔ خوف تب لاحق ہوتا ہے جب حقیقت سے زیادہ بیانیوں کو بہتر کرنے پر توجہ ہو۔ ایمان تو اپنا بیانیہ آپ بناتا ہے۔ اور حق کا بیانیہ تو پہلا ہوتا ہے۔ جوابی تو نہیں۔
ہیگل کے فلسفے نے جس طرح ڈاکٹر جیکئل اور مسٹر ہائڈ والے بہروپ کو ہماری معاشرت کا جواز بنایا۔ ہم نے اُس سے بڑھ کر اُس کو اپنا ایمان اور اصول بنا لیا۔
اس وقت بھی تمام نظریاتی تنظیمیں طالبان کی جیت پر بالکل بچوں کی طرح کہہ رہی ہیں “ دیکھا ہم نا کہتے تھے؟”
اچھا چلیں آپ جو کہتے تھے وہ ہوگیا۔ تو کیا پاکستان میں مسلمان بہتر ہوگئے یا آپ کی زندگی میں جھوٹ ختم ہوگیا؟
دنیا کے حالات تو یہ بتاتے ہیں ہیں کہ آپ ابھی تک چیونگم کے پیکٹ کے حلال حرام میں غلطاں ہیں۔ جھوٹ، قماربازی، عورت کے ساتھ زیادتی سب کچھ تو اس اسلامی مملکت میں ہوتا ہے۔
اب کیا خیال ہے افغانستان کی کیس سٹڈی سے آگے بڑھ کر اپنے ملک کی حقیقت پر غور کر لیں؟
بیانیوں کے علاوہ بھی کچھ کریں ہم؟
حقیقت کا بیانیہ تو رب کریم نے قرآن مجید اور نبی ٌ کی سیرت میں رکھا ہے۔ اب کب تک پیشین گوئیاں ہمارے مستقبل کا فیصلہ کریں گی؟

صائمہ شیر فضل 

Comments

Popular posts from this blog

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔  اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی ...

Hermeneutics and symbolism

Quran does not limit human experience with metaphor. It uses metaphor to expand his/her intellectual horizon but it uses real stories to limit the interpretation. Similarly the symbolism in Quran is not a mere metaphor. Every symbol has a reality but we are told by Allah ji to not try interpreting them in this world. The wisdom behind this is undoubtedly profound. Human reality cannot be based on allusions to something which no human has ever experienced thus it has to be based on something which is experienceable . Practicable and implementable. Such is the reality of prophetic examples in all three monotheistic religions.  It would be relevant to note here that lived experience is of vital importance but the lived experience of one individual cannot be generalised unless the creator and steerer of  all lived experiences chose that individual. That is why safeguarding the prophetic legacies and believing in the finality of prophet hood is vital today for those who choose to b...

آسان لفظوں میں:

اعلان:مندرجہ ذیل تحرير میں ایک غیر مسلم باجی کی تحقیق کو پسند کیا گیا ہے۔ جن جن کو لادین فکر اور انگریز کی غلامی کی جادوئی جکڑ کا خطرہ لاحق ہے وہ اپنے اپنے بلوں میں منہ دیے رکھیں اور پڑھنے سے اجتناب کریں ۔ خوفزدہ کے ایمان اور عقل دونوں میں موجود خرابی اور زیادہ ہوسکتی ہے۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالج کے زمانے میں اکثر دوست احباب میں ایک پنجابی مقولہ بولتے،سنتے تھے۔ "سوچی پیا تے بندہ گیا!"  یہ وہ زمانہ تھا جب ہر کام عموما کم  سوچ کر کئے جاتے تھا اسی لیے شائد کام ہو بھی جاتے تھے۔اس بات کو میرے سوچنے والے نظریاتی بہن بھائیوں اور باجیوں نے ہرگز دل پر نہیں لینا۔ آپ اپنی سوچ پر بالکل تالے نا ڈالیں۔ بس لوگوں اور خیالی دشمنوں کے بارے میں کم سو چیں تو انشااللہ آفاقہ ہوگا۔ایک غیر نظریاتی اور غیر مسلم باجی کی تحقیق  پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ باجی کا نام سوزن ہوئیکسیما ہے۔ اپنی کتاب "ویمن ہو تھنک ٹو مچ" (women who think too much) میں انھوں نے ریسرچ کی دانستہ کوشش سے یہ ثابت کیا کہ  باجیاں جو زیادہ سوچتی ہیں وہ زیادہ تر منفی ہی سوچتی ہیں ا...