Skip to main content

آسان لفظوں میں :


 


شطرنج کی بساط میں ہر مہرے کے پاس انتخاب کے لئے دو ہی گنجائشیں ہوتی ہیں۔ 


سیاہ یا سفید۔ 


غلامی  فرض  اور  ہار جیت مقدر


رب کائنات کی دنیا شطرنج کی بساط نہیں۔ یہاں سیاہ اور سفید الگ نہیں ایک دوسرے میں پیوسط ہیں ۔


حسن عدل لازم  اصول ہے ۔


اطاعت طرز ہے۔


طریقت کے غلام انسانوں کی بادشاہی میں شطرنج کے مہرے بن جاتے ہیں۔ ہر قدم ایک چال اور ہر حرکت ایک وار۔ 


سیرت میں بالکل شروع ہی میں جس  جگہ نبی ٌ  کے چہرہ مبارک کا ذکر ملتا ہے۔ اُس کے بالکل قریب ہی اُن کی چال کا  ذکر بھی ملتاہے۔ اُن کے قدم ایسے مظبوطی سے اُٹھتے تھے جیسے  کسی بلندی سے اترتے انسان کو ڈھلان پر رکھنے پڑتے ہیں۔


اُنٌ کے جسم کا جھکاؤ آگے کی طرف ہوتا تھا۔ جس نے کبھی اسطرح چلنے کی کوشش کی ہوگی اُسے اندازہ ہوگا کہ اس حالت میںانسان کا جسم جلد تھکاوٹ کا شکار نہیں ہوپاتا۔ ایک شعوری عاجزی اپنی سی لگتی ہے اور راستے کی طوالت، اُس کے اتار چڑھاؤعام اور ناگزیر۔ نا جیتنے کی جلدی نا وار کی تیاری۔ 


صرف موجود کا گہرا ادراک اور بھلائی کی نیت۔ 




انسانی شعور کے یہ دو قدرتی آلات ہتھیاروں کی سہولت اور جنگ کی ضرورت، دونوں پر حاوی ہونے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ 


مگر تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وقتی راحت کا جنون بھی عادت میں بدل جاتا ہے اور طاقت کی افیون کے طلبگار بڑھ جاتے ہیں۔ 


معاشرے میں کسی بھی قسم کے عدل کا نفاذ صرف تب ہی ممکن ہوتا ہے جب رہنماء راستے کی طوالت اور پیچ و خم سے گھبراتےنہیں۔ انصاف کی چوٹ خود پر بھی آئے تو پیچھے نہیں ہٹتے اور جیتنے کی وقتی راحت کے جنون سے زیادہ عدل کے نفاذ میں کوشاںرہتے ہیں۔ ایسے لوگ آزاد ہوتے ہیں اور ایسے ہی لوگ اعتبار کے قابل ہوتے ہیں۔ 


اعتبار رب پر ایمان سے پھوٹتا ہے۔

 پہلے رب پر پھر خود پر۔

 رب پر اعتبار اطاعت پر آمادہ کرتا ہے اور خود پر اعتبار تبدیلی پر۔


چودہ اگست قریب ہے۔  غلامی سے آزادی کا راستہ  طویل نہیں۔ صرف اعتبار کی کمی ہے۔ 


صائمہ شیر فضل


Comments

Popular posts from this blog

باجی کا دوپٹہ

میری   باجی   اور   میں   بالکل   ایسے   ہیں   جیسے   یک   جان   دو   قالب۔   یہ   کہنا   بھی   غلط   نا   ہوگا   کہ   باجی   کی   خاطر   میں   نے   کافی   جسمانی   صعوبتیں   بھی برداشت   کیں۔   چھوٹے   ہوتے   ہوئے   باجی   مجھی   کو   آنکھ   مچولی   میں   کس   کر   بھائی   یا   سہیلی   کی   آنکھ   پر   باندھ   دیتییں   تھیں۔   مجھی   کو   پھیلا   کر   سارے   شہتوت   چگتییں۔   کالج   جاتے   جاتے   باجی   نے   میرے   استعمال   میں   جو   بدعات   ایجاد   کیں   ۔   اُن   کا   حساب   تو   اللہ   ہی   اُن   سے   لے   گا۔   رکشے   کی   ہر   سواری میں   باجی   مجھے   بل  ...

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔  اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی ...

The cat woman and bat man Bhai; An introductory lesson in sociology 101

CAT WOMAN: The convenient feminist BAT MAN BHAI : Saviour of the convenient feminist planted by the patriarchy The cat woman:  "there is no milk in the fridge" Bat man bhai: "I bought three bottles of milk yesterday" The cat woman: "I can't see them" Bat man bhai: "try moving your eyeballs" The cat woman: "did you just insult me" Batman bhai: "I just tried helping you" The cat woman: "I never asked for help" The bat man bhai: "you said you couldn't see" The cat woman: "that was a statement not a cry for help" The bat man bhai: "statements end with a full stop or and exclamation mark not a question mark" The cat woman: "you can hear punctuation" The bat man bhai: "Is that a question?" The cat woman: "no" The bat man bhai: "I thought so" A loud blast and a crash is heard. The bat man bhai:  " I helped the neighbours daughter get out but ...