Posts

بدلتا وقت:

Image
  تیسری قسط: محمد اور ابا کو ناشتہ دے کر احمد نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ ٓا فس میں وقت تھا ابھی۔ احمد نے محبت سے محمد اور ابا کی طرف دیکھا۔ دونوں ناشتے کی اہمیت اور محمد کی بلی کی صحت پر گفتگو میں مصروف تھے۔ احمد نے پھر گھڑی کی طرف دیکھا۔ آپا نے دیر کردی آج۔ یہ سوچتے سوچتے وہ اپنے  بیڈروم کی طرف چل پڑا۔ الماری کھول کر کپڑے نکالے اور اُن پر جلدی جلدی استری ماری۔ واش روم کا دروازہ ابھی کھولا ہی تھا کہ گیراج سے ہارن کی آواز آئی۔ آپا  آگئیں ! احمد نے دل میں سوچا اور تسلی سے شاور لینے چل دیا۔  مريم آپا صدیق صاحب اور آمنہ بیگم کی پہلونٹی کی اولاد تھیں۔ مریم کے دس سال بعد احمد پیدا ہوا۔ مریم کو تو جیسے جیتا جاگتا بُڈاوا ہاتھ آگیا۔ صدیق صاحب اور مریم دونوں ہی احمد کے بے جا لاڈ اُٹھاتے۔ ایک آمنہ بیگم ہی تھیں جنھیں بیٹے کے بگٖڑنے کا خوف محبت کے بے جا اظہار سے روک دیتا۔ احمد کے بعد صدیق صاحب کی اور اولاد  نا ہوئی۔ مریم، احمد اور آمنہ، یہ ہی کُل دنیا تھی صدیق صاحب کی۔ مریم کو صدیق صاحب نے جلد ہی بیاہ دیا تھا۔ دیکھے بھالے لوگ تھے۔ سولہ سالہ مریم جب بیاہ کر اپنے گھر کی ہوئی تب  احمد تقریبا پانچ

ON CUE Domestic violence-legislation; focus and reality:

(names of the survivors have been changed to protect their identity, social standing and right to privacy) “The day he hit a psitol butt on my head and i started bleeding i called my maternal uncle and told him what my husband had done, he replied that in our religion even if a wife washes a husbands feet and drinks the water she cannot repay the husband” shared Khadija. This is a real account of a domestic violence survivor. Who after an 18 year marriage and 3 grown up kids finally mustered the courage to take khul and seperate from a physically abusive husband she thought was sick and dependant on her. The psychological and emotional abuse she went through is so immense that she and her kids had to go through therapy to come back to normal life.  This is not an account of some uneducated poor woman. This is an account of an educated woman. Educated from prestigious institutions of Pakistan. Her husband also educated from highly prestigious institutions and placed in a powerful positi

ناصح اور بندر

بندر   نے   انسان   کو   ارتقاء   کے   علاوہ   بھی   بہت   سے   حقائقِ   زندگی   کو   گہرائی   سے   سمجھایا۔   ان   میں   سے   ایک   انتہائی   دلچسپ   حقیقت   نقل کی   نفسیات   ہے۔   بچپن   میں   ایک   مولوی   صاحب   کی   ٹوپی   کی   کہانی   بہت   شوق   سے   سنتے   تھے۔   وہ   مسجد   کے   باہر   ٹوپیوں   کی   ریڑھی   پر   ٹوپیاں   بیچا   کرتے تھے۔ایک   دن   اُن   کی   آنکھ   کیا   لگی   جس   درخت   کے   نیچے   ریڑھی   تھی   اُس   پر   بندروں   کا   ایک   ٹولہ   رہتا   تھا۔   بس   پھر     بندروں   نے   ساری ٹوپیاں   اُٹھائیں   اور   یہ   جا   وہ   جا۔   مولوی   صاحب   سو   کر   اُٹھے   تو   بندروں   کی   کار   ستانی   پر   بڑا   کُڑھے۔   ہوا   میں   زور   دار   مکا   لہرایا   ۔   بندر   نقل کے   ماہر۔   اُنھوں   نے   بھی   جواب   میں   مکے   لہرائے۔   مولوی   صاحب   نے   پتھر   مارا   ۔   جواباً   وہی   پتھر   واپس   آلگا۔   اسی   ادل   بدل   میں مولوی   صاحب   بندروں   کی   زبان   و   نفسیات   سمجھ   گئے۔   بس   پھر   مولوی   صاحب   بھاگ   کر   مسجد   میں   ایک   نمازی   کی   ٹوپی   لا

آسان لفظوں میں:

ایک دن بچوں کو اسکول چھوڑتے وقت جب بیٹی نے خرچے کے پیسے مانگے  تو بٹوے میں ُکھلے نوٹ ختم تھے۔ میں نے جلدی میں  بیٹی کو سو کا نوٹ تھما دیا  کہ باقی واپس کردے گی۔  بیٹی نے اگلے دن پھر پیسے مانگے تو میں نے پچھلوں کا حساب مانگا۔ کہنے لگی وہ تو پتا نہیں کہاں گئے۔ میں نے پوچھا یہ کیا جواب ہوا۔ اگر آپ کو یہ ہی نہیں پتا کہ پچھلوں کا کیا ہوا تو آگے اور پیسے کیا سوچ کردوں۔ پھر اُس کو سمجھ آئی اور اُس نے پوری بات بتائی کہ میں نے پیسے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے اور شائد وہ بے دھیانی میں میرے سے کہیں گر گئے۔ اب خیال سے اندر رکھ لوں گی ۔  اس ذمہداری کو سمجھنے پر میں نے اُس کو مزید خرچے کے پیسے تھما دیے۔  آج صبح صبح جب اخبار اُٹھایا تو معلوم ہوا کہ اب پاکستان جغرافی سیاست کی بجائے جغرافی معیشت پر دھیان دے گا۔ اور اس میں ہماری مدد ہمارا فولادی بھائی چین کرے گا۔ اُخوت اور بھائی چارے کا اظہار اپنی جگہ۔ تھوڑے بہت معاشی داؤ پیچ ہر وہ فرد اپنی جغرافیائی حدود میں استعمال کر ہی لیتا ہے جس کے پاس کوئی اختیار ہو۔ رشتہ اور اختیار جغرافیہ بھی بدل دیتا ہے۔ یہ انسانی نفسیات ہیں۔ انصار اور مہاجرین کے بھائی چارے نے بھی

On Cue:

  Once I stopped one of my kids from drawing with markers on the wall, the younger one pointed out quite truthfully that "Mama you didnt stop Api from doing the same on the other wall" I went and checked the wall and saw that he was telling the truth. I went back to him and told him that he was right I hadnt stopped Api because I wasnt aware of what she had done and that she had set a precedent for others to follow. I reassured him that Api would suffer the same fate as him if they didnt stop. Kids! :) It was interesting to hear the PM's speech yesterday. His optimism for a better democratic future of Pakistan was uplifting yet his insistence on accepting "China's version of the Ughiyurs" was deeply disturbing. He pointed out the hypocritical silence of the west on kashmir issue and its extra focus on Chinese atrocities in Xinjiang rather than indian atrocities in Kashmir. This insistence on denying human rights abuses just because of US hypocrisy is not &#

آسان لفظوں میں

Image
    بچپن   میں   ایک   عینک   ملا   کرتی   تھی۔   ساتھ   میں   کچھ   کارڈز   ملتے   تھے۔   عینک   میں   دو   رنگ   ہوتے   تھے۔   لال   اور   نیلا۔   جب   عینک   لگا   کر کارڈز   پر   نظر   ڈالتے   تھے   تو   جیسے   سب   کچھ   زندہ   اور   جاندار   نظر   آنے   لگتا   تھا۔   ہر   عینک   ایسے   ہی   انسان   کی   دنیا   کو   جاندار   بناتی   ہے۔   دھوپ   میں   کالے   شیشے   آنکھوں   کو   محفوظ   رکھتے   ہیں   پر   جب   دھوپ   نہیں   ہوتی   تو   وہی   شیشے   ہر   شے   کو   اندھیرے   میں   ڈبو   دیتے   ہیں۔   دیکھنے   والے   کیا   دیکھنا   چاہتے   ہیں   اس   اختیار   کا   استعمال   وہ   اپنی   عینک   سے   کرتے   ہیں۔   تاریخ   ایسی   ہی   دور   اندیش   اور   حساس   عینکوں سے   دیکھی   گئی   اور   دیکھنے   والوں   نے   جب   اپنی   نظر   کو   الفاظ   میں   قید   کیا   تو   گویا   حقیقت   کے   ایک   پہلو   کو   قید   کیا۔   جب   مارکسسٹ   سارے   مسائل   کی   جڑ     انسانوں   کے   غیر   مساوی   نظام   تقسیم   کو   گردانتے   ہیں   تو   وہ   بھی   محض   ایک   پہلو   کی   بات   کرتے ہیں۔   جب     س

The secular conscious

Image
This is such an interesting term. I came across it while doing a comparative study between the secular and the islamic paradigm. Having worked closely with a few religious organisations my understanding of this term was not very different from the researcher I read, the only difference being that she was questioning the secular conscious because of its non-committant attitude towards principles and permanence while I questioned the same in those who claim to be religious. The secular conscious or mindset then is something not limited to the apparently liberal . Its something which plagues all. Its best defined with this word 'non-committance'. Not commiting to boundaries does not make a system or people more flexible. It actually makes them more rigid. Those who do not commit to a path, do not plan to reach anywhere. Those who do not have anywhere to go often create trouble for the rest. Saima Sher Fazal