Skip to main content

ناصح اور بندر



بندر نے انسان کو ارتقاء کے علاوہ بھی بہت سے حقائقِ زندگی کو گہرائی سے سمجھایا۔ ان میں سے ایک انتہائی دلچسپ حقیقت نقلکی نفسیات ہے۔ 


بچپن میں ایک مولوی صاحب کی ٹوپی کی کہانی بہت شوق سے سنتے تھے۔ وہ مسجد کے باہر ٹوپیوں کی ریڑھی پر ٹوپیاں بیچا کرتےتھے۔ایک دن اُن کی آنکھ کیا لگی جس درخت کے نیچے ریڑھی تھی اُس پر بندروں کا ایک ٹولہ رہتا تھا۔ بس پھر  بندروں نے ساریٹوپیاں اُٹھائیں اور یہ جا وہ جا۔ مولوی صاحب سو کر اُٹھے تو بندروں کی کار ستانی پر بڑا کُڑھے۔ ہوا میں زور دار مکا لہرایا ۔ بندر نقلکے ماہر۔ اُنھوں نے بھی جواب میں مکے لہرائے۔ مولوی صاحب نے پتھر مارا ۔ جواباً وہی پتھر واپس آلگا۔ اسی ادل بدل میںمولوی صاحب بندروں کی زبان و نفسیات سمجھ گئے۔ بس پھر مولوی صاحب بھاگ کر مسجد میں ایک نمازی کی ٹوپی لائے۔ سر پرپہنی اور بندروں کے سامنے جا کر زور سے اُتار کر زمین پر دے ماری ۔ مولوی صاحب کی دیکھا دیکھی بندروں نے بھی ٹوپی اُتاریاور زمین پر دے ماری۔ مولوی صاحب نے ٹوپیاں اکٹھی کیں اور راستہ ناپا ۔ 


بندروں نے نقل کی۔ مولوی صاحب نے نقل کا سامان بدل دیا۔ 


بے مقصد انسان بھی نقل ہی کرتے ہیں۔ بس اُن کو پتا نہیں ہوتا وہ کسی کی نقل کر رہے ہیں۔ اگر آپ ایک ایسے خوش قسمتانسان ہیں جو کچھ حلقہ اثر رکھتے ہیں اور لوگ آپ کی نقل کرنا پسند کرتے ہیں تو اپنے رویوں میں مقصد کو اولین ترجیح دینا شروعکردیں۔ ہر کام میں مقصد واضح ہو تو ماپنا ممکن ہوتا ہے۔ ماپنا ممکن ہو تو انسان خود اپنے پیمانے کو آفاقی پیمانوں پر تولتے ہیں ۔ 


کچھ لوگ نقل کرتے کرتے اصل مقصد تک پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ محض نقل پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ ناصح کا کام ناقل بندروں کی پیداواراور افزائش نہیں۔ ناصح کا کام عاقل اور بالغ انسانوں کو مقصد یت کے آفاقی پیمانوں سے جوڑنا ہے۔ 


یہ تمام تمہید اس لئے کیونکہ آجکل جو idol worship اور ہیروز کا کلچر ہے وہ سارے کا سارا ایسی ہی نقل کا رسیا ہے اور مولویصاحب نے تو نقل کی حد ہی کردی کہ وہ بھی اب رول ماڈلنگ کی نقل میں ہیرو بھرتی ہونے جارہے ہیں۔ 


مقصدیت؟ پیمانے ؟ 

اللہ جانے


صائمہ شیر فضل 


#تعریض



Comments

Popular posts from this blog

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔  اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی ...

Hermeneutics and symbolism

Quran does not limit human experience with metaphor. It uses metaphor to expand his/her intellectual horizon but it uses real stories to limit the interpretation. Similarly the symbolism in Quran is not a mere metaphor. Every symbol has a reality but we are told by Allah ji to not try interpreting them in this world. The wisdom behind this is undoubtedly profound. Human reality cannot be based on allusions to something which no human has ever experienced thus it has to be based on something which is experienceable . Practicable and implementable. Such is the reality of prophetic examples in all three monotheistic religions.  It would be relevant to note here that lived experience is of vital importance but the lived experience of one individual cannot be generalised unless the creator and steerer of  all lived experiences chose that individual. That is why safeguarding the prophetic legacies and believing in the finality of prophet hood is vital today for those who choose to b...

آسان لفظوں میں:

اعلان:مندرجہ ذیل تحرير میں ایک غیر مسلم باجی کی تحقیق کو پسند کیا گیا ہے۔ جن جن کو لادین فکر اور انگریز کی غلامی کی جادوئی جکڑ کا خطرہ لاحق ہے وہ اپنے اپنے بلوں میں منہ دیے رکھیں اور پڑھنے سے اجتناب کریں ۔ خوفزدہ کے ایمان اور عقل دونوں میں موجود خرابی اور زیادہ ہوسکتی ہے۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالج کے زمانے میں اکثر دوست احباب میں ایک پنجابی مقولہ بولتے،سنتے تھے۔ "سوچی پیا تے بندہ گیا!"  یہ وہ زمانہ تھا جب ہر کام عموما کم  سوچ کر کئے جاتے تھا اسی لیے شائد کام ہو بھی جاتے تھے۔اس بات کو میرے سوچنے والے نظریاتی بہن بھائیوں اور باجیوں نے ہرگز دل پر نہیں لینا۔ آپ اپنی سوچ پر بالکل تالے نا ڈالیں۔ بس لوگوں اور خیالی دشمنوں کے بارے میں کم سو چیں تو انشااللہ آفاقہ ہوگا۔ایک غیر نظریاتی اور غیر مسلم باجی کی تحقیق  پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ باجی کا نام سوزن ہوئیکسیما ہے۔ اپنی کتاب "ویمن ہو تھنک ٹو مچ" (women who think too much) میں انھوں نے ریسرچ کی دانستہ کوشش سے یہ ثابت کیا کہ  باجیاں جو زیادہ سوچتی ہیں وہ زیادہ تر منفی ہی سوچتی ہیں ا...