Posts

Of perversions and perceptions:

Of the many perversions prevalent in our society, the glamourisation of sensationalism is also one. It has now become ‘cool’ to experience and foster stress , anxiety, dissent ( without due cause) to exclude and to be different.  We actually revel( consciously or sub-consciously) in a weird sense of thrill by creating anger, anxiety, fear and difference in others.  To be in agreement or to be similar is politically and socially incorrect. A blow to one’s individuality. To become one has been seemingly made difficult.  I am reminded of a beautiful approach I once read in a book by Tariq Ramadan and cannot help but quote that:  “The point I am making is that we cannot go on standing at our windows. Off we go, we said, along the paths of the heart, the mind and the imaginary! The horizon ahead of us offers us a choice between two paths: we can go from window to window, from one philosophy to another and from one religion to another, and try to understand , one by one

صالح کون؟

صا لح کون؟ کچھ انسان  کل انسانیت میں ایندھن کی طرح پھر جاتے ہیں، خرچ ہوجاتے ہیں۔ ایسے قوت بہم پہنچاتے ہیں کہ انسان دوبارہ سے جی اُٹھتا ہے۔ یہ لوگ اصل جان ہوتے ہیں کسی بھی  خاندان کی، ادارے کی اور پھر معاشرے کی۔  ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہر معاشرے کی اُٹھان کے لیے انتہائی اہم۔ یہ لوگ انسانوں کو قدرت کے اس کارخانے میں اپنی شناخت کا گر سکھا دیتے ہیں۔ایک کو دوسرے سے ملاتے، باہم جوڑتے، قدرت کے عطا کردہ خزانے سے لوگوں میں  محبتیں اور قوتیں بانٹتے چلے جاتے ہیں۔   خود ایک بریج کا کام دیتے ہیں۔ تاکہ لوگ اوپر سے گزر کر اپنی منزل کو جلد پہنچ جائیں ۔ تاکہ انسان سے انسان کا فاصلہ کم ہو جائے۔ یہ خرچ ہونے آتے ہیں اور خرچ ہو جاتے ہیں۔ اپنی شخصیت کو پیش کرنے کی کوشش نہیں کرتے مگر زمانہ ان کی شخصیت کو یاد رکھتا ہے۔  قوتوں اور باہمی محبت و یکجہتی کا ایسا سلسلہ چھوڑ جاتے ہیں جو انسانیت کے ساتھ اُس کی انتہا تک رہے گا۔ یہ  معاشرے کی وہ کریم ہوتے ہیں جن کی اصل قدردانی صرف اُن کا رب ہی کر سکتا ہے۔ اِن کی اصل اِن کے ایمان میں ہوتی ہے۔ اُن کے یقین   میں۔ یہ اصل میں معاشرے کا وہ صا لح عنصر ہوتے  ہیں جو عدل اور راست

اچھے؟ اچھا

اچھے؟ اچھا! کچھ  پرانی اصطلاحات کے جدید( اچھے) معنی: اچھا انسان: جو  دیکھنے میں آپ کی آنکھوں کو مناسب لگے ، وہ بولے جو آپ سننا پسند کریں زیادہ تر اپنے کام سے کام رکھے اور آپ کے کسی بھی ناجائز فعل پر آنکھیں میچ لے! اچھے رشتہ دار: جو صرف کسی شادی یا مرگ پر نظر آئیں اور نا کچھ پوچھیں نا بتائیں اچھا رشتہ ( لڑکا): بہن بھائی ناپید ہوں ، زیادہ سے زیادہ کوئی ایک ہو تو خیر ہے۔ گھر اور گاڑی اپنی ہو۔ جیب بھاری ہو! ماں باپ کا نافرمان ہو تو اور بھی اچھا۔ اچھا رشتہ (لڑکی): لمبی ہو ، گوری ہو، ناک درست ہو 😒، پی ایج ڈی یا ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہو، عمر ۲۲ سال سے زیادہ نا ہو، کماتی ہو، فرمانبردار ہو ، مدَر ٹریسہ ہو،   ریموٹ پر ایویلیبل ہو تو کیا ہی بات ہے! اچھا کھانا: تیل خوب ہو، مرچ تیز ہو ، رنگ لال ہو، گوشت کسی بھی چیز کا ہو ، ذائقہ خوب ہو۔ سجاوٹ بھر پور ہو اور اگر تین چار ہزار روپے سے اوپر کا ہو اور روپے کسی اور کے ہوں تو اور بھی اعلیٰ! اچھی تعلیم: عاجزی ندارد  ہو، علم ناپید، تکبُر شدید ہو، تحمل و برداشت    نیست ! فیشن ایبل حقارت مزاج میں شامل ہو۔ بداخلاقی کا میڈل ہو۔ ڈگری آئوی لی

لفظ

لفظ: اک لفظ خود حجاب ہے اک لفظ بے حجاب سا تاثیر میں الگ الگ اظہار میں جُدا جُدا اک بے صبر، اک دلنشیں اک ہے گماں ، دوجا یقیں اک تخمِ بیداری بنے دوجا بنے تخمِ بے خودی خلوت میں جس کو نمو ملی عزلت میں جس کی حیات تھی قوت تھی جس میں نفوز کی تطہیر کی، تعمیر کی وہ لفظ اب نا پید ہے مُو ہوم ہے ، مفقود ہے۔ ہر شے اور احساس کو ہر نام ، ہر انسان کو اظہار کی اب قید ہے اس قید کا جو نام ہے وہ "آزادیِ اظہار" ہے۔ الفاظِ حاظر میں کہاں وہ جان اب باقی رہی  جو روح کا احساس تھی،جو قلب کا وجدان تھی ہر لفظ ، ہر تحریر میں لطافت سے بے اعتناعی ہے اک سطحی سی صناعی ہے الفاظ بھی بکتے ہیں اب روح کا بھی مول ہے کچھ بھی اس دور میں اب کہاں انمول ہے۔ تو لفظ اپنے چن لو سب کہ وقت بہت کم ہے اب وہ چنو کہ جس کو ثبات ہو وہ جو ابتداِ  دوام ہو جسے قانونِ کائنات میں بقا ہو مکافات میں کہ وقت بہت کم ہے اب ہاں وقت بہت کم ہے اب ! ثمین صدف

عبداللہ !

عبداللہ: بنایا تم کو کس نے ہے؟ کیا کوئی ہے کہ خود سے ہو ؟ ازل سے ہو؟ ابد تک ہو؟ نہیں ہو نا؟! تو پھر کیا ہو؟ فقط نقطوں میں اِک نقطہ؟ فقط ذروں میں اِک ذرہ؟ کامل ہو کہ ناقص ہو؟ خالق ہو کہ خلقت ہو؟ تو پھر یہ فیصلہ کر لو! حقیقت اپنی تم چن لو! غلامی گر ہے فطرت میں اسیری گر ہے قسمت میں تو پھر یہ کشمکش کیسی؟ تو پھر یہ شش و پنج کیسی؟ بشر کی ہو؟ یا رب کی ہو ؟ یہی چننا ہے نا تم کو؟ تو پھر کیوں نا غلامی اُس کی چن لیں ہم ۔۔۔ مُرّتب جو مراتب کا، موّلد جو عناصر کا۔۔۔ اوّل، وہ جسے کردے، مؤخر وہ نہیں ہوتا! عمل گر ایک سا بھی ہو، ماحصل یک نہیں ہوتا! یہی تو کاروانِ قدرت میں۔۔ علامت ہے اسارت کی یہ عالم قید خانہ ہے کوئی رکنے کی جا تھوڑی! یہ ان دیکھی سلاسل جو تمہیں بڑھنے سے روکے ہیں۔۔ یہی تو اصل میں تم کو تمھارے رب سے جوڑے ہیں۔۔ انھیں مظبوط تھامو تم، یہیں سے راستہ پکڑو! نہیں ہے شک کوئی اس میں ! ہم اُس کے تھے، اُسی کے ہیں! اُسی کے پاس سے آئے! اُسی جانب پلٹنا ہے! ثمین صدف۔

عدلِ کُل کا پرزہ

اِک کوشش میں بھی کرتی ہوں اِک کوشش تم بھی کر دیکھو ہر پل کے شور تماشے میں جو اپنا توازن کھو بیٹھو تو اوزان برابر کرنے میں میزان کو سیدھا رکھنے میں نا وقت اپنا برباد کرو نا خود تم خدا بن بیٹھو رب کے کام رب جانے انسان ہو تم انسان رہو اپنے کام سے کام رکھو انسان کا کام ہے ڈٹ جانا ہر حق کی بات پہ جم جانا اوزان تو رب کے ہاتھ میں ہیں آفاق میں عادل وہ ہی ہے انسان تو بس اِک بندہ ہے اِک آلہ ، اِک کارندہ ہے متاعِ کلاں کے کُل میں۔۔۔ معمولی سا اِک پرزہ ہے جو اپنی جگہ جب جم جائے تو اگلا پرزہ ہلتا ہے یہ راز سمجھنے والا ہی پھر عدل کے اِن کُل، پرزوں میں۔۔۔۔ اِک قابِل پرزہ بنتا ہے ثمین صدف

The search within

In the circle of life it  so happens, that when what has been written  comes to be! We learn again what we knew already!  and that ... the  search within is a journey  Where we travel from 'i'  to 'me'! For it is only those who have found themselves,  find God! eventually! Sameen Sadaf