Posts

لفظ

لفظ: اک لفظ خود حجاب ہے اک لفظ بے حجاب سا تاثیر میں الگ الگ اظہار میں جُدا جُدا اک بے صبر، اک دلنشیں اک ہے گماں ، دوجا یقیں اک تخمِ بیداری بنے دوجا بنے تخمِ بے خودی خلوت میں جس کو نمو ملی عزلت میں جس کی حیات تھی قوت تھی جس میں نفوز کی تطہیر کی، تعمیر کی وہ لفظ اب نا پید ہے مُو ہوم ہے ، مفقود ہے۔ ہر شے اور احساس کو ہر نام ، ہر انسان کو اظہار کی اب قید ہے اس قید کا جو نام ہے وہ "آزادیِ اظہار" ہے۔ الفاظِ حاظر میں کہاں وہ جان اب باقی رہی  جو روح کا احساس تھی،جو قلب کا وجدان تھی ہر لفظ ، ہر تحریر میں لطافت سے بے اعتناعی ہے اک سطحی سی صناعی ہے الفاظ بھی بکتے ہیں اب روح کا بھی مول ہے کچھ بھی اس دور میں اب کہاں انمول ہے۔ تو لفظ اپنے چن لو سب کہ وقت بہت کم ہے اب وہ چنو کہ جس کو ثبات ہو وہ جو ابتداِ  دوام ہو جسے قانونِ کائنات میں بقا ہو مکافات میں کہ وقت بہت کم ہے اب ہاں وقت بہت کم ہے اب ! ثمین صدف

عبداللہ !

عبداللہ: بنایا تم کو کس نے ہے؟ کیا کوئی ہے کہ خود سے ہو ؟ ازل سے ہو؟ ابد تک ہو؟ نہیں ہو نا؟! تو پھر کیا ہو؟ فقط نقطوں میں اِک نقطہ؟ فقط ذروں میں اِک ذرہ؟ کامل ہو کہ ناقص ہو؟ خالق ہو کہ خلقت ہو؟ تو پھر یہ فیصلہ کر لو! حقیقت اپنی تم چن لو! غلامی گر ہے فطرت میں اسیری گر ہے قسمت میں تو پھر یہ کشمکش کیسی؟ تو پھر یہ شش و پنج کیسی؟ بشر کی ہو؟ یا رب کی ہو ؟ یہی چننا ہے نا تم کو؟ تو پھر کیوں نا غلامی اُس کی چن لیں ہم ۔۔۔ مُرّتب جو مراتب کا، موّلد جو عناصر کا۔۔۔ اوّل، وہ جسے کردے، مؤخر وہ نہیں ہوتا! عمل گر ایک سا بھی ہو، ماحصل یک نہیں ہوتا! یہی تو کاروانِ قدرت میں۔۔ علامت ہے اسارت کی یہ عالم قید خانہ ہے کوئی رکنے کی جا تھوڑی! یہ ان دیکھی سلاسل جو تمہیں بڑھنے سے روکے ہیں۔۔ یہی تو اصل میں تم کو تمھارے رب سے جوڑے ہیں۔۔ انھیں مظبوط تھامو تم، یہیں سے راستہ پکڑو! نہیں ہے شک کوئی اس میں ! ہم اُس کے تھے، اُسی کے ہیں! اُسی کے پاس سے آئے! اُسی جانب پلٹنا ہے! ثمین صدف۔

عدلِ کُل کا پرزہ

اِک کوشش میں بھی کرتی ہوں اِک کوشش تم بھی کر دیکھو ہر پل کے شور تماشے میں جو اپنا توازن کھو بیٹھو تو اوزان برابر کرنے میں میزان کو سیدھا رکھنے میں نا وقت اپنا برباد کرو نا خود تم خدا بن بیٹھو رب کے کام رب جانے انسان ہو تم انسان رہو اپنے کام سے کام رکھو انسان کا کام ہے ڈٹ جانا ہر حق کی بات پہ جم جانا اوزان تو رب کے ہاتھ میں ہیں آفاق میں عادل وہ ہی ہے انسان تو بس اِک بندہ ہے اِک آلہ ، اِک کارندہ ہے متاعِ کلاں کے کُل میں۔۔۔ معمولی سا اِک پرزہ ہے جو اپنی جگہ جب جم جائے تو اگلا پرزہ ہلتا ہے یہ راز سمجھنے والا ہی پھر عدل کے اِن کُل، پرزوں میں۔۔۔۔ اِک قابِل پرزہ بنتا ہے ثمین صدف

The search within

In the circle of life it  so happens, that when what has been written  comes to be! We learn again what we knew already!  and that ... the  search within is a journey  Where we travel from 'i'  to 'me'! For it is only those who have found themselves,  find God! eventually! Sameen Sadaf

کچھ تو رہنے دو!

کچھ تو رہنے دو! اپنے اظہار میں اپنے الفاظ میں کچھ تو رہنے دو! سب نا کہہ دو اب! آزادیِ لب بہت خوب رہی! بہت بول لیا! کچھ تو دم لو اب ِاس زباں کو تم کچھ نیا دو اب بے زبانی کو کچھ تو سمجھو اب! خامشی کی بھی اپنی طاقت ہے اِس کی طاقت بھی اک عبادت ہے کچھ تو سوچو اب آنکھ کھولو اب! راز انساں کی حقیقت کا اُس کی خامَشی  میں پنہاں ہے اُس کو ڈھونڈو اب! کچھ تو کھوجو اب! دل کو بینائی اِس سے ملتی ہے روح کی شنوائی اِس میں ہوتی ہے کچھ تو سننے دو۔ چپ کرو نا اب! اس زباں کی بے حجابی کو باحجابی سے بدل دو اب! قوتِ روح و ایماں کو کچھ پنپنے دو! اُٹھ کھڑے ہو اب! آنکھ کھولو اب! کچھ تو سوچو اب! کچھ تو سننے دو! کچھ پنپنے دو! اُٹھ کھڑے ہو اب! اُٹھ کھڑے ہو اب! ثمین صدف

Reformative Minds

THE ROAD LESS TRAVELLED  If  the  stages of human civilization  throughout time  could be illustrated , an   arc  would  certainly do justice  to the expression of  volatility  in  human thought . An arc similar to a  pendulum’s  arc .  Humanity has, in  a continuous search fo r  balance, travelled back and forth from extremes and in this  journey  there  has always been  a  time when the  pendulum  of our existence on its way back from one extreme has bought  forth  minds ;   unique, progressive and visionary . Minds  who went on to b ecome the  greatest sources of reform and reconstruction throughout human  history. It’s  quite significant to note here that what sets these minds apart from an average mind of  their time is the  flexibility  of thought in dealing with t ruths, events and circumstance s . Being progressive  is  actually  more of an approach which makes human beings sift through all the lies and reveal the truth  in a way most pertinent to  that time.  An approach

درد!

وہ دل کمزور کیونکر ہو کہ جس میں درد پلتا ہو، ابھی احساس زندہ ہو۔ اسے میں کیوں کہوں بزدل جو دل اندھا نہیں ہوتا جو دل بہرا نہیں ہوتا کہ جس میں کشفِ یزداں کا سبب یہ درد بنتا ہو ! یہیں سے جنم لیتا ہے ہر وہ جوہرِ کارآمد۔ جو پھر آواز بنتا ہے۔ جو پھر انسان بنتا ہے۔ کبھی پھر تم نہ یہ کہنا کہ درد کمزور کرتا ہے۔ کہ درد ، درد کرتا ہے۔ جو سجدے میں گراتا ہو درد کرتا بھی ہو تو اسے نعمت سمجھنا تم کہ رب کے پاس کرتا ہے ہمیں انسان رکھتا ہے۔ ثمین صدف