Posts

Reformative Minds

THE ROAD LESS TRAVELLED  If  the  stages of human civilization  throughout time  could be illustrated , an   arc  would  certainly do justice  to the expression of  volatility  in  human thought . An arc similar to a  pendulum’s  arc .  Humanity has, in  a continuous search fo r  balance, travelled back and forth from extremes and in this  journey  there  has always been  a  time when the  pendulum  of our existence on its way back from one extreme has bought  forth  minds ;   unique, progressive and visionary . Minds  who went on to b ecome the  greatest sources of reform and reconstruction throughout human  history. It’s  quite significant to note here that what sets these minds apart from an average mind of  their time is the  flexibility  of thought in dealing with t ruths, events and circumstance s . Being progressive  is  actually  more of an approach which makes human beings sift through all the lies and reveal the truth  in a way most pertinent to  that time.  An approach

درد!

وہ دل کمزور کیونکر ہو کہ جس میں درد پلتا ہو، ابھی احساس زندہ ہو۔ اسے میں کیوں کہوں بزدل جو دل اندھا نہیں ہوتا جو دل بہرا نہیں ہوتا کہ جس میں کشفِ یزداں کا سبب یہ درد بنتا ہو ! یہیں سے جنم لیتا ہے ہر وہ جوہرِ کارآمد۔ جو پھر آواز بنتا ہے۔ جو پھر انسان بنتا ہے۔ کبھی پھر تم نہ یہ کہنا کہ درد کمزور کرتا ہے۔ کہ درد ، درد کرتا ہے۔ جو سجدے میں گراتا ہو درد کرتا بھی ہو تو اسے نعمت سمجھنا تم کہ رب کے پاس کرتا ہے ہمیں انسان رکھتا ہے۔ ثمین صدف

See the truth:

We are limited, partial beings. Halves, Quarters, thirds of a whole. Never free from being a part. Never isolated, by ourselves. Often forgetting the whole, we keep focusing on ourselves. We keep trying to become a half when we are a third and a third when we are a quarter. We forget that with us alone the picture will remain incomplete. Alone we might see a lot of facts but never the whole truth. It's a fact that x got hurt. The truth is that X became a better person after all the hurt. It's a fact that z is independent. The truth is z has caged himself. Facts only indicate the obvious of a deeper truth always. Never fall merely for statistics to form opinions. Look deeper. We can learn to look deeper. More holistically. If we understand natural justice. ADL.عدل There is much to see and less to say. What can be seen, cannot always be told. Ask for vision. Try to see the whole. The truth of many facts will become visible. "There's a world of diff

لاشعور:

ماہرِ نفسیات کا کہنا ہے کہ انسانی  ذہن ایک ایسےآئس برگ کی  مانند ہے۔جو آدھے سے زیادہ پانی  میں ڈوبا ہوا ہے اور اُس کی نوک یا چوٹی  جو پانی سے باہر  نظر آ رہی  ہے، انسانی ذہن کے شعور کی نمائندگی کرتی ہے اور باقی ماندہ  آئس برگ جو ڈوبا ہوا ہےاور نظر نہیں آرہا  وہ انسانی ذہن کا وہ حصہ ہے جو لا شعور کہلاتا ہے۔ اس لا لا شعور کا بھی ایک اور مزید  حصہ ہے۔ جو تحت اشعور کہلاتا ہے۔ مزید کہتے ہیں کہ انسان کی شعوری شخصیت اور رویوں کا ۸۰%  دارومدار اسی لا شعور  پر  ہوتا ہے ۔ اس لا شعور کی تعمیر رحمِ مادر میں ہی شروع ہو جاتی ہے اور تقریباً ۷ سال کی عمر تک ایک پختہ بنیاد بن چکی ہوتی ہے۔ وہ تمام رویے/ احساسات جو ایک معصوم جان نے اپنے اندر جزب کر لیئے ہوتے ہیں اس کے لاشعور کا جز بن جاتے ہیں۔ اگر ماں با پ اور ارد گرد کے ماحول میں رنجش اور تناؤ کے احساسات عام ہیں ۔ زندگی کے معملات میں خود غرضی اور غصہ معمول ہیں تو یہ سب کچھ اس ننھے لا شعور میں  ذخیرہ ہورہا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ یہ ذخیرہ اوریاداشت جو اس کے اندر محفوظ ہے وہ فوری استعمال میں آئے۔ مثال کے طور پر اگر ماں یا باپ راہ چلتے فقیر کو دھتکا

The Voice of Silence:

Anyone who has experienced a typical Pakistani wedding can understand why after a few days all different varieties of curries, rice, salads and desserts look and taste the same. Anyone who has ever held a colour palette in his/her hand would know how all the colours loose their distinct identity once mixed with another colour. Lately the variety of different intellectual opinions have done just that. To me all the distinctness and difference seems to have merged into a single live, pulsating being. All voices lost in the sound of the chorus. It doesn't matter really how loud you say it or how good your voice is. It doesn't matter even how right it is. The only thing that matters now is who succeeds in staying silent. The voice of silence is often stronger than what  we perceive. The director in an orchestra is the Master and the master is silent. Directing the voices. The chorus has lost direction. It's becoming extremely chaotic. Too much mixing and too

جاہل کون؟

عجیب سا سوال ہے۔ یعنی جہالت کی بھی قسمیں ہوتی ہیں؟ جی بلکل ہوتی ہے اور آخر کیوں نہ ہوں۔ انسان نے ہر چیز میں ترقی کرلی اور جہالت اُسی پرانے طریق پر۔ یہ بھی کوئی بات ہے! کسی بھی زمانے میں سب سے بہترین جہلاء بھی اس معاشرے کی کریم سے ہی آتے ہیں۔ آج کل بھی بہترین جہلاء سند یافتہ ہیں۔ جہالت کا اظہار بھی ایسے کرتے ہیں  گویا کمال کرتے ہیں۔ اس فن کے ماہر ین  محض قیاس پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اپنی ہر جہالت کی دلیل لاتے ہیں۔ سبحان اللہ! جا ہل  بننا لیٹیسٹ فیشن ہے۔ کسی بھی اسکول کالج میں یار دوستوں کی گفتگو سن لیں ۔ لفظ 'جاہل ' کا بے دریغ اور محبت بھرا استعمال  اس بات کی دلیل ہے۔ اس کُل تحریر کا مقصد جہلاء کی اہمیت کو کم کرنا یا خدانخواستہ ان کی تذلیل کرنا ہرگز نہیں۔ بلکہ اس مثبت امر کی طرف توجہ دلانا ہے کہ جب جب کسی قوم میں جہلا ء کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے تو انقلاب ضرور آتا ہے۔ ہماری قوم بھی کسی ایسے ہی انقلاب کی منتظر ہے۔ (یہ تحریر کسی اصل انسان  یا انسانوں کو ذہن میں رکھ کر نہیں لکھی گئ۔ حقیقی افراد و واقعات سے مماثلت اتفاقی  ہے۔ برائے مہربانی عالم حضرات اس  تحریر کو پڑھن

نظریاتی اختلاف کا اصل مسئلہ

نظریاتی اختلاف کا اصل مسئلہ: ‎کسی بھی نظریے کا بنیادی مسئلہ اس امر میں نہیں کہ ‎وہ  جن حقائق سے بحث کرتا ہے وہ غلط ہیں کہ صحیح بلکہ اس کا بنیادی مسئلہ اس امر میں  ہے کہ ان حقائق سے بحث کرنے کے لیے جو طرز فکر اپنایا جاتا ہے وہ تخصیصی  ہے کہ کلی۔ ‎اور چونکہ انسان کُل کا مکمل ادراک نہیں کر سکتا تو درداصل کوئی بھی انسانی نظریہ تب تک محدود رہے گا جب تک وہ ہدایت الٰہی کو اپنا اصل ماخذ نہ بنا لے۔ ‎ہدایتِ الٰہی کو ماخذ بنانے کے بعد جو بھی اختلاف رونما ہو گا اس میں بہرحال اجتماعی خیر متحرک کرنے والے عناصر جب تک زیادہ رہیں گے تب تک انسان کا فکری ارتقاء ایک درست اور مستقل نہج پر جاری رہے گا۔ ‎ایسی صورتِ حال  میں جب ماخذ درست اور مشترک ہو تو انسانوں میں نظریاتی تفاوت تعمیر فکر کا باعث بنتا ہے۔ ‎دونوں طرز فکر یعنی تخصیصی اور کلی کے مظاہر میں تفاوت کا اظہار لطیف ہے۔ تخصیصی فکر کا اظہار و انحصار فرد کے مفاد اور ذوق پر ہو تا ہے۔ جس کی انتہا  انتشار ہے۔ ‎فکرِ کُلی کا اظہار و انحصار افراد کے مفاد اور ذوق پر ہو تا ہے۔  جس کے نتیجے میں ایک خودکار فکری عمل جنم لیتا ہےجو انسانیت کی تعمیر اور ترقی