Skip to main content

محرومی سے پیدا ہونے والے منفی رویے

محرومی سے پیدا ہونے والے منفی رویے:

محرومی، انسانی زندگی کی ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کو جتنا جلد سمجھ لیا جائے اُتنا ہی جلد انسان ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔

اس کو نا سمجھنے سے جو رویے انسانی شخصیت کا حصہ بنتے ہیں وہ بہت ہی زہریلے ہوتے ہیں جنھیں آج کل ٹوکسیسیٹی یا ٹوکسک بی ہیویرز کہا جاتا ہے۔ یہ زہر مقدار میں تھوڑا بھی ہو مگر وقت کے ساتھ ساتھ مہلک اور جان لیوا ہو جاتا ہے۔ اسی لئے بروقت سدباب اور چینلنگ (channeling ) بہت ضروری ہو جاتی ہے۔

محرومی کی وجوہ اور علامتوں پر ہم بعد میں غور کریں گے ۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ محرومی انسان پر منفی اثر کب کرتی ہے۔

جی یہ ممکن ہے کہ محرومی انسان کی طاقت بن جائے مگر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اُس کی تباہی کا سبب بن جائے تو دراصل محرومی محض ایک حقیقت ہے جس سے پنپنے کے طریقے اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ یہ مثبت ثابت ہوگی کے منفی۔

اگر انسان اس سچائی کا کلی ادراک کرلے کہ محرومی مخلوق کا مقدر ہے اور یہ کہ تمام قسم کی محرومیوں سے پاک صرف ربِ کائنات کی ذات ہے تو پھر رویوں کا رخ خود بخود درست نہج پر چل پڑتا ہے ۔ توحید پر ایمان اس بات کا متقاضی ہے کہ انسان محرومی کو اپنی اور دوسرے انسانوں کی ذات کا ایک فطری و مستقل حصہ مان لے۔ اور اس دنیا کو جائے آزمائش۔

جب انسان ان دونوں باتوں میں سے کسی ایک کا بھی شعوری یا لاشعوری طور پر انکار کرتا ہے تو وہ ایک زہر کی چھوٹی سی پوٹلی اپنے سینے میں محفوظ کر لیتا ہے جو کسی بھی دھچکے پر کھل کر پورے جسم میں سرائیت کرنے کی منتظر رہتی ہے۔

محرومی کی وجوہ بہت سی ہو سکتی  ہیں جن میں اولاد سے محرومی، مال سے محرومی، صحت سے محرومی، محبت سے محرومی غرضیکہ کسی بھی ایسی شے یا احساس سے محرومی جس کی آپ کو شدید خواہش یا ضرورت ہے۔

محرومی کی علامات بھی سمجھنے کی ہمیں شدید ضرورت ہے کیونکہ یہ ایسی حقیقت ہے جس سے ہر انسان ہی کسی نا کسی حد تک متاثر ہوتا ہے چاہے وہ صاحب علم و فہم ہی کیوں نا ہو۔ بلکہ اس وقت تو اس کی تشخیص و علاج اور بھی ضروری ہوجاتا ہے جب متاثرہ فرد صاحب علم ہو اور معاشرے میں ایک مؤثر کردار بھی ادا کر رہا ہو۔

رویوں میں شدت، ہر وقت عدم تحفظ کا شکار رہنا، کنٹرولنگ رویے، خود ترسی کے رویے، پروجیکشن یعنی اپنی کمزوریوں کو دوسروں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرنا، سراہے جانے کی شدت ( attention gaining tactics)لوگوں سے بیزاری میں شدت ، انسانوں سےمحبت میں شدت، نفرت میں شدت یہ سب رویے محرومی کی منفی چینلنگ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

تو محرومی کی مثبت چینلنگ کیا ہو تی ہے اور اُس سے کون سے رویے جنم لیتے ہیں اور منفی سے مثبت کا یہ سفر کیسے طے کیا جائے؟

یہ سفر اتنا مشکل بھی نہیں ۔ انسان کو رب کائنات نے بہت مظبوط قوتِ ارادی عطا کی ہے ۔ صرف ارادے کی دیر ہے اور وہی محرومی جو باعث تباہی تھی باعث ترقی بن جاتی ہے۔ چینلنگ ایک بہت اہم اور تدریجی فعل ہے۔ اس میں انسان اپنے دل سے شروعات کرتا ہے ۔ اور دل کو تمام قسم کی گندگی سے پاک کرنے کی آہستہ آہستہ کوشش کرتا ہے۔ یکسو ہونے کی کوشش کرتا ہے ۔ اپنی فکر کی تطہیر کرتا ہے۔ ایک ایک سوچ میں توحید کو زندہ کرتا ہے اور شرک سے انکار۔

اپنے خود ساختہ معبودوں کو ڈھاتا ہے اور رب کائنات سے مدد کا طالب ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو مخلوق اور اللہ سبحان و تعالی کو خالق، معبود و حاکم ماننے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔

اپنے دل میں رب کی محبت کا یقین محسوس کرتا ہے۔

اس بات کا یقین کے رب تعالی میرے لئے بہترین چاہتا ہے وہ مجھے بہت پیار کرتا ہے اور کبھی مجھے تنہا نہیں چھوڑتا۔
اس بات کا یقین کے اُس کی دی ہوئی ہر محرومی میں بھی دراصل عطا ہی عطا ہے۔
اپنے دل سے ہر موڑ پر سوال کرتا ہے کہ میرے رب کو کیا مطلوب ہے؟
میرا رب ہی چاہے تو کوئی اچھائی یا برائی مجھ تک پہنچتی ہے۔ اگر یہ محرومی مجھے پہنچی ہے یا نصیب میں لکھی ہے تو اس سے میں نے کیا سیکھنا ہے؟
اس سے فائدہ کیسے اُٹھایا جاسکتا ہے؟

اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے ہی محروم لوگوں کو رب غنیٰ عطا کرتا ہے اور وہ محروموں کی دلجوئی اور محبتیں بانٹنے والے افراد بن جاتے ہیں۔

وہ ایک سبیل بن جاتے ہیں معاشرے میں خیر کی اور یہ سب محض اس لئے کہ وہ اپنی محرومی کو اُس کامل ذات کی طرف چینل کرنا سیکھ جاتے ہیں جس کے دربار سے کوئی محروم نہیں جاتا۔

یا مقلب القلوبِ ثبت قلبی علیٰ دینک۔

#ایمان پر لوٹیں
#اسلام پر لوٹیں

ثمین صدف

Comments

This comment has been removed by a blog administrator.
togel toto123 said…
This comment has been removed by a blog administrator.

Popular posts from this blog

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔  اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی ...

Hermeneutics and symbolism

Quran does not limit human experience with metaphor. It uses metaphor to expand his/her intellectual horizon but it uses real stories to limit the interpretation. Similarly the symbolism in Quran is not a mere metaphor. Every symbol has a reality but we are told by Allah ji to not try interpreting them in this world. The wisdom behind this is undoubtedly profound. Human reality cannot be based on allusions to something which no human has ever experienced thus it has to be based on something which is experienceable . Practicable and implementable. Such is the reality of prophetic examples in all three monotheistic religions.  It would be relevant to note here that lived experience is of vital importance but the lived experience of one individual cannot be generalised unless the creator and steerer of  all lived experiences chose that individual. That is why safeguarding the prophetic legacies and believing in the finality of prophet hood is vital today for those who choose to b...

آسان لفظوں میں:

اعلان:مندرجہ ذیل تحرير میں ایک غیر مسلم باجی کی تحقیق کو پسند کیا گیا ہے۔ جن جن کو لادین فکر اور انگریز کی غلامی کی جادوئی جکڑ کا خطرہ لاحق ہے وہ اپنے اپنے بلوں میں منہ دیے رکھیں اور پڑھنے سے اجتناب کریں ۔ خوفزدہ کے ایمان اور عقل دونوں میں موجود خرابی اور زیادہ ہوسکتی ہے۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالج کے زمانے میں اکثر دوست احباب میں ایک پنجابی مقولہ بولتے،سنتے تھے۔ "سوچی پیا تے بندہ گیا!"  یہ وہ زمانہ تھا جب ہر کام عموما کم  سوچ کر کئے جاتے تھا اسی لیے شائد کام ہو بھی جاتے تھے۔اس بات کو میرے سوچنے والے نظریاتی بہن بھائیوں اور باجیوں نے ہرگز دل پر نہیں لینا۔ آپ اپنی سوچ پر بالکل تالے نا ڈالیں۔ بس لوگوں اور خیالی دشمنوں کے بارے میں کم سو چیں تو انشااللہ آفاقہ ہوگا۔ایک غیر نظریاتی اور غیر مسلم باجی کی تحقیق  پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ باجی کا نام سوزن ہوئیکسیما ہے۔ اپنی کتاب "ویمن ہو تھنک ٹو مچ" (women who think too much) میں انھوں نے ریسرچ کی دانستہ کوشش سے یہ ثابت کیا کہ  باجیاں جو زیادہ سوچتی ہیں وہ زیادہ تر منفی ہی سوچتی ہیں ا...