راستہ!

کبھی جو راستہ پوچھ بیٹھے
 مجھ سے کوئی تو
لبوں پہ میرے
اک مسکان آکے رک سی جاتی ہے
خیال آتا ہے نہ جانے،
 یہ کتنا بھٹکا راہی ہے
جو راہ دریافت کرنے کو
بھی اک گم راہ سے ٹکرایا
پھر یہ اُمید کے شائد،
اِسی کی مدد کی خاطر
ابھی تک رب نے روکا ہے
مجھے مجبور کرتی ہے
کہ دیا جلاؤں میں
جو گم ہو گئی مجھ سے
وہ راہ اس کو د کھلاؤں میں
ابھی ہر سو اندھیرا ہے
نہ جانے کتنا چلنا ہے
نہ جانے کب سویرا ہے
خیال پوچھتا ہے تو،
اُسے تھپک کر سُلاتی ہوں۔
پھر میں دیا جلاتی ہوں
رب کے سامنے اپنا
  دامن بھی پھیلاتی ہوں
خدایا معاف کردے تو
اپنے اِس بندے کو
جو رستہ بھول بیٹھا ہے
اِسے رستہ دکھا دے تو
روانہ جب سفر پر اپنے
وہ راہی پھر سے ہوتا ہے
پلٹ کر میں
سرِ راہ  پھر
آکے بیٹھ جاتی ہوں
کہ اپنا کام باقی ہے
ابھی اتمام باقی ہے۔
ثمين صدف

Comments

Popular posts from this blog

THE MODERN SKEPTIC

Raising strong Muslims.

I am pained :