ادھوری سچائیاں

چلیں،
تو راستہ،
خود شناسی کا
سبھی کو مل ہی جاتا ہے
پرکھ بھی آ ہی جاتی ہے
فرق بھی پڑ ہی جاتا ہے
جو کھوجیں ہم حقیقت کو
کبھی یہ مل بھی جاتی ہے
کبھی یہ ٹل بھی جاتی ہے
تلاشِ اس کی بھی جاری ہے
سفراپنا بھی جاری ہے
 آغازِ سفر میں ہی،
عجب سی تشنگی پائی
مکمل کچھ نہیں ملتا،
ابھی یہ ہی سمجھ آئی
یہاں ہر راہ وقتی ہے
یہاں ہر سچ ادھورا ہے
جو چاہو بھی تو لاحاصل
یہاں ہر چاہت ایسی ہے
ادھوری خواہشیں ساری
ادھوری سعاتیں ساری
سبھی کچھ تو ادھورا ہے
صرف اک رب ہی پورا ہے۔
صرف اک رب ہی پورا ہے۔
ثمین صدف

Comments

Popular posts from this blog

THE MODERN SKEPTIC

Raising strong Muslims.

I am pained :