Posts

ٓآسان لفظوں میں:

  —————————————— فکر کا تخم بھی بارآور ہونے کے لئے قرار مانگتا ہے۔ قرار آجائے تو وجود مل جاتا ہے۔ فکر کو قرار عمل سے آتا ہے۔ آج کی نوجوان نسل فہم کی سیڑھیاں جس تیزی سے پار کر رہی ہے عمل کو وہاں تک لاتے عمر لگ جاتی ہے۔ اسی کمی یا گیپ کو پُر کرنے میں مدد گار ڈھانچے وضع کرنے پڑیں گے۔ جو اِس فہم کو بریک لگا کر عمل کی چابی دیں سکیں۔ دکھ اور تکلیف اس بات کا ہے کہ جدید معیشت نے انسان کو بھی ریسروس گردانا تو فہم بھی کموڈیٹی یعنی اشیاء صرف میں شامل ہوگیا ۔جب ایسے ہوا تو محض فہم کی خرید و فروخت کے لئے تھنک ٹینکس وجود میں آگئے جہاں انسان کی سوچ اور فہم کو خرید کر آل رائٹس ریزرو کردیا گیا۔ اور اُس کو بھی معیشت کے لئے مخصوص کرلیا گیا۔ محبت اور قربانی پر مبنی ہر سوچ اور فہم بیکار ہوگیا۔ پھر جب تھینک ٹینکس نے مل کر اونچا سوچنا شروع کیا تو پرانے فہم پر عمل کی کمی تو اپنی جگہ رہی اور بجائے اس کے کہ اُس عمل سے کچھ نیا پھوٹتا اُس کی جگہ کچھ نیا سوچنے کے جنون نے پرانا بھی گنوا دیا۔ عمل کی چابی عجز مانگتی ہے۔ صبر مانگتی ہے ۔ توکل و عمر مانگتی ہے۔ یہ سب نیا پن بھی قرار مانگتا ہے اور قرار ہی مزید حرکت کا

ON CUE!

  ———————— The US Presidents have never minced any words when defending their country’s or its allies war crimes. Biden’s consistent support of Israeli ‘security tactics’ comes from the same mindset which justifies civilian deaths as “collateral damage”. It’s futile to feel outraged at such an expression coming out of the US as it’s not something new or un expected. What’s thoroughly disheartening though are the ridiculous requests Arab countries are making to the west to stop Israel while they sit and see oppression just next door with muted souls. Death for the dying is peace at last but the living dead won’t find any peace in their palaces or oil till they do justice to the Palestinian Muslims. Such cowardice fuels instability in the region.Destruction of the AP and Al- Jazeerah offices is a clear indication that International organisations like the UN have again failed the Muslim World. Apparently laws don’t apply to all! Saima Sher Fazal #Palestine

آسان لفظوں میں:

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عید پر ایسا لگا کہ جیسے بیانوں کا طوفان ٓاگیا ہو۔ ایک ٓاگ غزا میں لگی ۔ ایک ہمارے سوشل میڈیا مجاھدین کو۔غزا میں جانیں گئیں۔ سوشل میڈیا پر احساس! ٖفلسطین پر اصلی بم گرے اور مسلمان اُمت کے بہادر لیڈران ٹویٹر پر فلسطین کا ساتھ دے رہے ہیں۔ "تم لڑو ہم دعا گو ہیں"۔ پچھلی کتنی دہائیوں سے یہی کیفیت ہے او ٓئی سی کی غیرت کی۔ صیحح لطیفہ بیان کیا ایک دوست نے او ٓائی سی صرف تب ہی لڑے گی اسرائیل سے جب وہ مسلمان ہوجائیں گے۔ جو مزہ ا آپس میں لڑنے کا ہے وہ غیروں سے کہاں!! سوشل میڈیا مجاہدین احتجاج ریکارڈ کرانے کے علاوہ اور کیا کیا کرسکتے ہیں جس سے فلسطینی مسلمانوں کی مدد ہوسکے: ۔ اپنی زندگی میں سچ کو فروغ دیں۔ سچ انسان کو بہادر بناتا ہے۔ سچ بولنے سے قومیں مظبوط ہوتیں ہیں۔ اپنے ٓاپ سے سچ بولیں ۔ اپنے خون کے رشتوں سے سچ بولیں۔ اگر سچ کی چوٹ خود پر آئے تب بھی سچ ہی بولیں۔ ۔ یہ ممكن ہوجائے تو پھر استغفار کریں۔ ایسے مسلمانوں کی اللہ مدد کرتا ہے اور پھر وہ احتجاج کے علاوہ بھی کچھ کر پاتے ہیں۔ صائمہ شیر فضل

Ramadan reflections 03:

Image
  The blessed month of Ramadan is going to end soon. Taking along with it the tranquility and healing it brought to a deeply scarred humanity. Scarred by the endless reign of oppression inflicted upon it from within. The last ashra was yet again marred with Israeli attacks along the Gaza Strip, third year in a row! Our PM on a holy visit to the Harmain. Special guest to the the Prince. Our Army chief deciding to help now in the Afghan peace process. The Kingdom of Saudi Arabia hosting talks with Qatar and Iran for better bilateral ties. All this happening in grand palaces while bombing rocks Gaza, war blockades starve the Yemnis. Muslim refugees wait stranded on European borders ,Kashmir is still “occupied” and the US “monitors the violence”* in Palestinian Territories from afar. *(actual statement from a US spokes person) To the powerful: You will not always have this power. Injustice done on your land will be brought upon you soon. Those who die because of your negligence are

آسان لفظوں میں:

  محبت اور خدمت نصیحت کی جگہ بناتی ہیں۔ بغیر محبت کے نصیحت اثر قبول نہیں کرتی اور یہ حقیت آفاقی ہے۔ وائرلیس دور میں برقی تعلق بڑھ گیا ہے اور حقیقی تعلق بکھر رہا ہے۔ برقی تعلقات میں اعتبار بھی سستا ہو جاتا ہے۔ جتنی جلدی بنتا ہے اُتنی ہی جلدی ٹوٹ جاتا ہے۔ جب انسان کا بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اُس کی پہلی ضرورت کو تعلق سے جوڑ دیا گیا۔ ماں کا لمس اور گود بن کہے جو نصیحت اُس کے اندر اُتارتی ہے وہ اعتبار اور محبت کوئی متبادل نہیں رکھتا۔ ماں بچے کو ساتھ لگا کر الگ ہونا بھی سکھاتی ہے تاکہ وہ اپنی شناخت خود کرسکے اور مکمل انسان بن جائے۔ خدمت اور محبت کا تعلق ایک ایسا گُر ہے جو صرف بہتری کا سامان ہی کرتا ہے اور اس کے پھل سے صرف ایک گھرانہ نہیں پورا معاشرہ مستفید ہوتا ہے۔ جب تربیت میں تعلق واجبی ہو تو نصیحت ندارد۔ روحانی بیداری کے لئے برقی ذرائع کا استعمال بالکل ایسے ہے جیسے بچے کے منہ میں فیڈر لگا کر اُس کو برقی جھولے میں ڈال دیا جائے۔ لوری ، لمس اور دعا سب کام آلات پر اور انسان مصروف مزید تعمیرِ آلات پر۔ اپنے قریب بچوں، بوڑھوں اور گھر والوں کا ہاتھ پکڑ کر چل کے دیکھیں۔ کسی کے بال بنا دیں۔ کسی کچن می

Ramadan Reflections 02:

Image
  -------------------------------------- The last ten days remaining now. Fascinated by the story of Moses (AS) and Khidr I learned something very interesting. Khidr knew what Moses (AS) did not. The most important take away lesson for me was the line when Khidr says: وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا ﴿٦٨﴾ "And how can you have patience for what you do not encompass in knowledge?" There is so much outside our realm of Knowledge that we cannot encompass. So many times in life that's our reality. Allah knows our limitations. He will never hold us responsible due to them but we should always remember. We do not know much!!! Faith is to be had and not to be measured. It is only when we realise that we do not know that our faith is tested. Remember in duas people. Saima Sher Fazal

ٓآسان لفظوں میں:

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب اخلاقی انحطاط عام ہوجائے تو فقہی اجتهاد آسان ہوجاتا ہے۔ عمل کی جگہ بنانے کے لیے لفاظی چاہیے ہوتی ہے اور عمل کو درست کرنے کے لیے جرات۔ جرات کی کمی کے کچھ عصری نتائج ۱۔ قرآن مجید کے دروس اور کورسز کی بھرمار اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے عملی۔ ۲۔ دینی فرقہ بندیوں میں طاقت کی سیاسی جنگ ۔ ۳۔ ضرورت کو طریقے اور وقت دونوں پر ترجیح دینا۔ ۴۔ دینی گروہوں کی پدرسرانہ تنظیم کے نتیجے میں بکھرتی ہوئی نسائیت۔ ۵۔ تقوی کچھ کے لیے اور توبہ سب کے لیے ۔ ۶۔ خلوص کا خاص ہوجانا۔ ۷۔ سودی طریقہ کار کی کثرت اور اُس پر اجتماعی اطمینان۔ جب ہر وہ گھڑی جس میں اپنائے گئے غلط طریقوں سے ضائع ہوئی جانیں اورر ان کے احوال معاشرے میں پلٹتے ہیں تو پھر کھیلنے والے خود کھیل بن جاتے ہیں اور وقت تماشائی۔ اس کائنات میں طاقت کے کھیل میں جیت ہار نہیں ہوتی ضرف وقت ہوتا ہے۔ ایک وقت طاقت کا اور ایک وقت زوال کا۔ جس وقت میں فقہی جرات اخلاقی قربانی قبول کرلے تو وہ وقت دین کے زوال کا ہوتا ہے۔ صائمہ شیر فضل