Posts

محبت کے رنگ : اماں وہ دیکھو! محمد نے بھاگتے ہوئے جب  آسمان کی طرف اشارہ کیا تو حیا نے نظر اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ نیلے آسمان پر سو دو سو کے قریب چڑیوں کا چھوٹا سا جھنڈ آسمان میں ایسے اُڑ رہا تھا کہ اُن کے چھوٹے چھوٹے پر ایک ہی لمحے میں اُوپر اُٹھتے اور پھر نیچے گرتے۔ ایسی ہم آہنگی تھی اُن کی پرواز میں  ، ایسی مظبوطی اور یقین جیسے کوئی پکڑے ہوئے ہے اُنھیں جیسے وہ کہہ رہی ہوں اے انسانوں کیا تمھیں ہے اتنا یقین ؟ جیسے فخر ہو اُن کو اپنے اس خوبصورت رقص پر ! جیسے کہہ رہیں ہوں،  دیکھو ہمیں! سوچو ، کیا یہ سب اتفاق ہے؟ اور تم ۔۔۔۔؟ تم خود کیا ہو؟ اے انسان! کیا تم ہم سے زیادہ بڑی نشانی نہیں؟! کیا تمھارا خود کا وجود کافی نہیں یقین کے لئے؟ کیا اب بھی ایمان نا لاؤ گے؟ کیا اب بھی اُس کی بڑائی کا اعتراف نا کرو گے؟! کب تک؟ آخر کب تک؟ حیا کا دل جیسے اُن کے پروں کی حرکت کے ساتھ ساتھ دھڑکنے لگ گیا تھا۔ اُس کا دل ہار چکا تھا اپنے رب کے آگے۔ وہ اپنے رب کی بڑائی اور حکمت کا اعتراف کر چکی تھی۔ وہ بھول چکی تھی کہ وہ کہاں کھڑی ہے۔اُس کا رواں رواں سبحان اللہ پکار رہا تھا۔اُس کا دل محبت ک
آزمائش! وَ فَرِحُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ ﴿٪۲۶﴾ اور یہ لوگ مگن ہیں دنیا کی زندگی پر‘ حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے تھوڑے سے فائدے کے۔ اس آیت پر حیا جیسے اٹک سی گئی۔ اس سے آگے اُس سے تلاوت کی ہی نہیں جارہی تھی۔زبان جیسے گنگ ہو گئی تھی۔ اُس نے محمد کی طرف دیکھا جو ابھی مزے سے سو رہا تھا۔ “ماما مجھے آپ نے نہیں اُٹھانا میں خود اُٹھ جاؤں گا” ۔ رات کو محمد حیا کو یہ کہہ کر سویا تھا۔ کھڑکی سے آنے والی دھوپ ایسے جیسے بالکل دبے پاؤں اُس سے بچ کر آہستہ آہستہ اُس کے چہرے پر سرکنے کی کوشش کررہی تھی۔ حیا کو سمجھ تھی کہ محمد نے ابھی  اپنا سفر طے کرنا ہے ۔ اپنے حصے کی آزمائش گزارنی ہے ۔ اُسی صورت اُس کو اس آیت کی حقیقت سمجھ آسکتی تھی۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اُس کو وہ فہم نہیں دے سکتی تھی جو زندگی نے اُس کو دیا تھا۔ کیونکہ اُس کو بھی زندگی نے ہی دینا تھا۔ اپنا مصحف بند کر کے حیا اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ اپنے جوگرز کے تسمے باندھتے باندھتے حیا ماضی میں کھو چکی تھی۔دروازہ کھول کر باہر نکلتے وقت اُس کو یہ ب

بڑائی

بڑائی! “مجھے نہیں سمجھ آتی  آپ ہر دفعہ مجھے ہی کیوں پیچھے ہٹنے کو کہتی ہیں۔ جب بانٹنا ہو میں ہی بانٹوں۔ جب چھوڑنا ہو میں ہی چھوڑوں۔ جب رکنا ہو میں ہی رکوں۔ آپ ہمیشہ صیح نہیں ہو سکتیں اماں۔ “ “ہر وقت دوسروں کو اتنی گنجائش بھی نہیں دینی چاہئے۔ میں ہر وقت نہیں رُک سکتا۔ لوگ غلط بھی ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح “ ظلم کا ساتھ دینا ہوتا ہے”! محمد غصے میں بولتا چلا جا رہا تھا اُس کو بالکل پتا نا چلا کہ حیا اُس کے اس جملے پر کتنا چونکی تھی اور کیسے اس جملے نے جیسے اُس کے لئے زماں و مکاں کے تمام حجابوں کو طے کرکے اُسے پھر سے ماضی کے اُسی لمحے میں پہنچا دیا تھا جس کو وہ اپنی دانست میں بھلا چُکی تھی۔ باجی کی شفیق اور فکرمند آواز پھر سے حیا کے کانوں میں گونجنے لگی۔ “حیا آخر کب تک ؟ آخر کب تک تم ظلم کا ساتھ دو گی؟ یہ اسلام نہیں ہے۔ ظالم کو  ظلم سے نا روکنا صبر نہیں ہے! صبر میں انسان عمل کرنا چھوڑ نہیں دیتا۔ ہر غلط سلط بات سہتا نہیں چلا جاتا۔ اصلاحِ حال بھی کرتا ہے۔ تم ان بچوں کو تباہ کر دو گی اس طرح کی زندگی سے۔ وہ نہیں جانتے صیح غلط کیا ہے۔ تم ماں باپ جو کرو گے وہی صیح غلط بن جائے گا اُن

اصل تصویر:

آج کی دنیا تصویروں کی دنیا ہے۔ رُکی ہوئی تصویریں  اور چلتی پھرتی تھری ڈی تصویریں۔ ایک پل میں جن کو دیکھ کر لگے کہ ابھی ہم بس کاغذ کی اِس حقیقت میں داخل ہی ہوئے جاتے ہیں یا پھر بس ابھی ایک پل میں ہی یہ حقیقت بس کاغذ سے باہر ہی آیا جاتی ہے۔ بڑی بڑی لائف سائز تصاویر ۔ ڈیجیٹل تصاویر ۔  ایڈیٹنگ اور ایفیکٹس اصل کو ایک نیا اصل دیتے ہیں۔ نیا اصل؟! نیا اصل وہ جس کو بننے کے لئے اور حاصل کرنے کے لئے ہم انسان خود کو بدلتے ہیں۔ جو نظر آتا ہے وہ بننے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اپنی اصل حقیقت سے بہت جلد بہت دور چلے جاتے ہیں۔ آج کل حقیقت اکثر ان تصویروں کے بل بوتے پر کھڑی کر دی جاتی ہے پھر حسبِ ضرورت یہی تصویریں  اُس کو منہدم کرنے کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ تصویروں کی اس بنتی بگڑتی دنیا میں اصل میں کیا بنتا ہے اور اصل میں کیا ختم ہوجاتا ہے وہ اکثر پسِ تصویر ہی رہ جاتا۔ ہم اپنی تصویروں کا ضمیمہ بن جاتے ہیں اور ہماری تصویر ہمارا اصل۔ اور وہ مصورِ عظیم ۔ ہمارا خالق و مالک۔ جس نے ہمیں ہماری اصل دی۔ ایک تصویر وہ بھی دکھاتا ہے ہمیں اپنی کتاب میں۔ اُس انوکھی تصویر جیسی کوئی اور نہیں۔ اُس می

محرومی سے پیدا ہونے والے منفی رویے

محرومی سے پیدا ہونے والے منفی رویے: محرومی، انسانی زندگی کی ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کو جتنا جلد سمجھ لیا جائے اُتنا ہی جلد انسان ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔ اس کو نا سمجھنے سے جو رویے انسانی شخصیت کا حصہ بنتے ہیں وہ بہت ہی زہریلے ہوتے ہیں جنھیں آج کل ٹوکسیسیٹی یا ٹوکسک بی ہیویرز کہا جاتا ہے۔ یہ زہر مقدار میں تھوڑا بھی ہو مگر وقت کے ساتھ ساتھ مہلک اور جان لیوا ہو جاتا ہے۔ اسی لئے بروقت سدباب اور چینلنگ (channeling ) بہت ضروری ہو جاتی ہے۔ محرومی کی وجوہ اور علامتوں پر ہم بعد میں غور کریں گے ۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ محرومی انسان پر منفی اثر کب کرتی ہے۔ جی یہ ممکن ہے کہ محرومی انسان کی طاقت بن جائے مگر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اُس کی تباہی کا سبب بن جائے تو دراصل محرومی محض ایک حقیقت ہے جس سے پنپنے کے طریقے اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ یہ مثبت ثابت ہوگی کے منفی۔ اگر انسان اس سچائی کا کلی ادراک کرلے کہ محرومی مخلوق کا مقدر ہے اور یہ کہ تمام قسم کی محرومیوں سے پاک صرف ربِ کائنات کی ذات ہے تو پھر رویوں کا رخ خود بخود درست نہج پر چل پڑتا ہے ۔ توحید پر ایمان اس بات کا متقاضی ہے کہ

Slandering spouses; our unspoken moral dilemmas

Slandering spouses; our unspoken moral dilemmas! Living in Pakistan one can’t be neutral or in middle of something. We are a people who love going to extremes. Extravagance at weddings, cricket frenzy, religious extremists , secular extremists, feminist extremists and patriarchal extremists . You name it and we will have an extremist version available ! The institution of marriage is no exception to this attitude either! Our reliance on Allah subhana wa tallah as Human beings and then as spouses dwindles on our own desires. As long as it serves their desires, Muslim couples give their partner the benefit of doubt but the instant their own desire or insecurity is challenged regarding reliance on Allah and the bond of Nikah they are led to extremities in their attitudes. Muslim men and women both cherish their  uptight self righteous stances on things they themselves usually don’t believe in nor have proof off. I am talking about how both normal and prevalent it has become

The red carpet and protocol; a culture of street level bureaucracy in Pakistan.

The red carpet and protocol; a culture of street level bureaucracy in Pakistan: The ‘chief Saab’ is very real but the ‘saab’ is no more . The Saab is a ‘mem’ (میم)now. Only that the narrative surrounding the ‘mem’ is such that it helps her navigate her autonomy in a very manipulative manner. This ‘chief mem’ is the emergent reality of a very confused society. Putting it simply. She can cry, she can boss and she can comply. She can and will play the victim often! All this for what? Power! Influence! To get her own way! This is not a piece of writing my fellow females will appreciate  very much but it addresses a phenomenon quite prevalent in Pakistan as a consequence of Globalisation. The global woman earns for herself, lifts her own weight and does not expect any favours from the men in her family or environment but the Pakistani woman is different. She aspires for the glamour, autonomy and fun her western counterpart enjoys but with all the expectations a Musl