ٓآسان لفظوں میں:

 بچپن میں ہمارے اسکول کے باہر  فٹ پاتھ پر سوڈانی حجہ بیٹھا کرتی تھیں۔ اُن کی چکور چادروں پر انواع و اقسام کے رنگ برنگے چسکے بہت ترتیب سے پڑے ہوتے تھے۔ جانے کیوں اسکول کے اندر تین تین کینٹینز کے باوجود چھٹی کے وقت اُن حجہ کی چھابڑی جیسے اپنی طرف کھینچتی تھی ویسے کبھی کینٹین نے نہیں کھینچا۔ شائد ایک ریال میں زیادہ ملنے کا لالچ، اسکول سے فراغت یا شائد چھوٹے چھوٹے رنگین کھلونے ۔گیٹ سے باہر اسکول بسوں کی لائینوں میں بلیلا اور ٓالو کے چپس کی چھابڑی والا بھی ایسے ہی بچوں سے فورا گھر جاتا تھا۔ اسکول اور بس کے درمیان جو دس منٹ کی مکمل آزادی ایک دو ریال جیب میں سنبھالے بچوں کو ہوتی تھی ، اسی سے اِن حجہ اور بلیلا والوں کی روزی جڑ ی ہوتی تھی۔

وہ دس منٹ اختیار اور آزادی کے متوازن استعمال کے لیے اُس وقت ہمیشہ ناکافی ہی لگے۔ ہر شے کو ٹٹول کر یہ دیکھنا بھی عادت سی بن گئی تھی کہ بنا ہوا کہاں کا ہے۔ اُس وقت تائی وان کی ہر شے ایسے ہی بکتی تھی جیسے اب چائنا مال بکتا ہے۔ ترکی کی آدھی سفید اور آدھی بھوری والی چاکلیٹ  بچوں میں سب سے زیادہ مقبول تھی۔باقی تمام چیزیں عموما مقامی ہوتیں۔ ایک آرزو ہمیشہ رہی کہ کبھی کسی شے کے پیچھے میڈ ان پاکستان کیوں نہیں لکھا ہوتا۔

یہ تو اب آکر سمجھ آئی کہ میڈ ان پاکستان ہونے کے لیئے معیشت کا بھی پاک صاف ہونا اُتنا ہی ضروری ہے جتنا افراد کا۔ تھوڑے سے بڑے ہوئے تو مختلف قومیتوں کے بچوں سے دوستی کے درمیان ایک نیا لفظ ایجاد ہوا۔ "پاکی"۔ (paki) !

یہ تعریف اور محبت کے نام سے زیادہ اُس تہذیب کا تحفہ تھا جس میں ہم سب پلے بڑھے۔ اس اختصار میں جو سطحیت عیاں ہے وہی  آہستہ آہستہ موجودہ تہذیب کا خاصہ بن گئی۔ اس اختصار والی تہذیب کا ایک اور خاصہ بھی ہے۔ نظریاتی اختصار۔ یعنی نظر کو اپنی غرض تک سمیٹ لینا۔ طبقاتی فرق پر تڑپنے والے ہر شے میں یہ فرق ڈھونڈ لیتے ہیں۔ طاقت کے رسیا ہر شے اور انسان کو طاقت کی سیڑھی سمجھتے ہیں۔ خود شناسی کا جنون رکھنے والے انسانوں سے کٹ جاتے ہیں۔ پرہزگاری کے چوغوں میں کبر  پلنے لگتا ہے۔  یہ اختصار مجبوری نہیں ۔ اختیاری ہے۔ 

حال ہی میں بڑی بہن نے مولانا گوہر رحمان کی کتاب علوم القرآن سے دو صفحے بھیجے پڑھنے کو۔ مولانا امام رازی کی رائے رقم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن انسانی عقل کو توحید کے دلائل بہترین طریقے سے دیتا ہے ۔ آسان الفاط میں یہ کہ قرآن مجید ہر انسانی عقل اور روح دونوں کے لیئے کسٹم میڈ ہے۔ نا صرف یہ نظر کے اختصار کو وسعت دیتا ہے بلکہ یہ انواع اقسام کے علوم میں سے بہترین کو ٹٹول کر ترتیب سے رکھ دیتا ہے۔ 

پھر طبقاتی فرق دیکھنے والوں کو اُس فرق کے نقصان کے ساتھ مصلحت بھی نظر آنے لگتی ہے۔ طاقت کے نشئیوں کا نشہ ٹوٹ جاتا ہے اور ذمہداری کی لگام محسوس ہونے لگتی ہے۔ پرہیزگار اپنے چوغے اُتار دیتے ہیں اور کمر کس لیتے ہیں۔یہ تبدیلی پھر وقتی نہیں واقعی ہوتی ہے ۔ 

ایمپورٹڈ معیشت اور کشکول کی عادت دونوں سے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔  اختیار اور آزادی کا متوازن استعمال بھی ممکن ہے۔

صائمہ شیر فضل






Comments

Popular posts from this blog

THE MODERN SKEPTIC

Raising strong Muslims.

I am pained :