Skip to main content

سوشل میڈیا اور باصلاحیت بچے

اپنے بچوں کا بچپن اور جوانی ضائع  نہ ہونے

بچوں میں اللہ نے قدرتی طور پر سیکھنے اور جذب کرنے کی صلاحیت ہم سے کہیں زیادہ رکھی ہوتی ہے۔ آج کل آئے دن روز باصلاحیت بچے اور نوجوان  سوشل میڈیا پر اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔ کبھی گا کر، کبھی ناچ کر ، کبھی اُونچی جگہوں سے چھلانگیں لگا کر، کبھی کچھ ایجاد کرکے، کبھی کسی بھوکے کو کھانا کھلا کے۔ غرض کے صلاحیت آپ سے آپ تشہیر کی محتاج ہوگئی۔ یعنی اگر کسی میں کوئی صلاحیت ہے تو اُس کو فوری محبت حاصل کرنا بے حد آسان ہوگیا ہے۔ سیلف لو اور نارسزم کی ایسی داستانیں رقم کی جارہی ہیں کہ جن کی نظیر نہیں اور یہ سب  موٹیویشن کے لئے۔ لیکن بڑھتی تو صرف ڈپریشن ہے۔
کبھی کلی کو دن میں پھول بنتے دیکھا ہے؟
کبھی بیج کو  دن میں درخت بنتے دیکھا ہے؟
نہین نہ؟  تو خدارا عقل کے ناخن لو اپنے دماغ کے وقتی چسکے کی خاطر معصوم بچوں کو تشہیر کر کر کے سستی شہرت
کا عادی نہ بناؤ، زندگی کے اُتار چڑھاؤ سے ناواقف بچوں کو پھلنے پھولنے دو۔
کسی ایسی پہاڑی پر مت چڑھاؤ جہاں سے واپسی کا راستہ ہی نا ملے۔
تشہیر صلاحیت کو پنپنے نہیں دیتی۔
محنت اور سفر کی تھکان سے فرار اور شارٹ کٹ مت مہیا کریں۔ جو علم، سفر اور وقت سکھاتا ہے اس کا کوئی بدل نہیں۔
تاریخ میں بڑے نام ہیں جنہوں نے سولہ سترہ سال کی عمر میں  سلطنتوں کا نظام چلایا۔ چودہ سال کی عمر تک  قرآن حدیث اور فقہ کی بیسیوں کتابیں حفظ کیں۔  ماہرِ طبیعات، طب و فلسفہ۔ غرض یہ کہ کونسا محاذ ہے جو اُنھوں نےخالی چھوڑا ہو ۔ مگر اس وقت اُن کی صلاحیت کو  ضائع کرنے کے لئے سوشل میڈیا موجود نہیں تھا۔ سوشل میڈیا   کے مواقع بلکل نقلی ہیں۔
زندگی کے سفر میں کوئی لفٹ نہیں۔
ایک ایک سیڑھی پر قدم رکھنا ضروری ہے!
یقیں محکم عمل پیہم۔۔۔
 #havefaith
#surrender

Comments

Popular posts from this blog

On Cue:

Spell bound?  Qazi Shareeh was a a famous tabaai ( those who had the opportunity to sit with the Sahaba of our beloved prophet saw) appointed as the head of the judiciary in the time of Omer (RA). The fact that in the presence  and life of great figures like the Sahaba, Shareeh was appointed as a head judge is of significance. He had the courage to give judgments against the ruler of the time and both Hazrat Omer and Hazrat Ali (RA) agreed to his verdicts in their opponents favour.  This independence ofcourse came from a strong character. Honesty, courage and humbleness at both ends. It was very interesting to follow the confusion of the govt and the conflicting statements of the opposition over the NAB ordinance mess. The way amendments are dished out in our country is so amazing that one wonders weather 'writing the law' has become more important than the implementation?! According to the spokesperson the amendments will bring more 'clarity'. Hoping they can bring mor...

بڑائی

بڑائی! “مجھے نہیں سمجھ آتی  آپ ہر دفعہ مجھے ہی کیوں پیچھے ہٹنے کو کہتی ہیں۔ جب بانٹنا ہو میں ہی بانٹوں۔ جب چھوڑنا ہو میں ہی چھوڑوں۔ جب رکنا ہو میں ہی رکوں۔ آپ ہمیشہ صیح نہیں ہو سکتیں اماں۔ “ “ہر وقت دوسروں کو اتنی گنجائش بھی نہیں دینی چاہئے۔ میں ہر وقت نہیں رُک سکتا۔ لوگ غلط بھی ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح “ ظلم کا ساتھ دینا ہوتا ہے”! محمد غصے میں بولتا چلا جا رہا تھا اُس کو بالکل پتا نا چلا کہ حیا اُس کے اس جملے پر کتنا چونکی تھی اور کیسے اس جملے نے جیسے اُس کے لئے زماں و مکاں کے تمام حجابوں کو طے کرکے اُسے پھر سے ماضی کے اُسی لمحے میں پہنچا دیا تھا جس کو وہ اپنی دانست میں بھلا چُکی تھی۔ باجی کی شفیق اور فکرمند آواز پھر سے حیا کے کانوں میں گونجنے لگی۔ “حیا آخر کب تک ؟ آخر کب تک تم ظلم کا ساتھ دو گی؟ یہ اسلام نہیں ہے۔ ظالم کو  ظلم سے نا روکنا صبر نہیں ہے! صبر میں انسان عمل کرنا چھوڑ نہیں دیتا۔ ہر غلط سلط بات سہتا نہیں چلا جاتا۔ اصلاحِ حال بھی کرتا ہے۔ تم ان بچوں کو تباہ کر دو گی اس طرح کی زندگی سے۔ وہ نہیں جانتے صیح غلط کیا ہے۔ تم ماں باپ جو کرو گے وہی صیح غلط بن جا...

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔  اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی ...