Skip to main content

Posts

On Cue:

 While reading up on discourse and narratives I discovered why individuals and groups decide to resist or adhere to certain discourses. A need to belong, to assert their existence and negate any threats to it seemed to be the most prevalent logic. The feminist discourse on 'women rights' and the conservative discourse on 'duty first' is no different. It's  a draining  debate on the organisation of two truths. Human fitrah adheres to its duty if its right to exist is not threatened. Zooming in, that is why each discourse tries to answer the critical questions of existence and purpose. No one claims complete answers. All take positions.  Positions can be conflicting, conciliatory or reciprocative.  Often enough in different circles I have felt an absence and intolerance to  that very prick that can burst the bubble of a certain discourse.  A conservative religious organisation's banners caught my eye and disturbed me greatly. It stated in Urdu that  "بے حیائی
Recent posts

ہلکا پھلکا

  اُردو   زبان   کے   قواعد   میں   اسم   صفت   اُس   نام   کو   کہتے   ہیں   جو   کسی   شخص، جگہ   یا   شے   کی   صفت   بیان   کرے۔ مثلاً  : ۱ - شناختی   کارڈ :  یہ   ایک   شے   ہے   جو   آپ   کی   وہ   صفات   بیان   کرتی   ہے   جن   کو   لکھ   کر   گلے   میں   لٹکانا   یا   پھر   جیب   میں   رکھنا   عین     مقدس ہے۔   اس   ایک   شے   کے   صفاتی   بیان   سے   آپ   ہر   دشمن   اور   بلا   سے   محفوظ   رہ   سکتے   ہیں۔   کچھ   خاندان   اس   مقدس   شے   کی   تقدیس   و حفاظت   کی   خاطر   اس   کو   گھر   کے   بڑوں   کی   تحویل   میں   دے   دیتے   ہیں۔   اس   طرح   اس   کے   صفاتی   طلسم   کو   وہ   خاندان   کے   تعویزی   نظام میں   بوقتِ   سیاست   وقتا   فوقتا   استعمال   کرتے   ہیں۔   ۲ :  اُلو :  یہ   ایک   شخص   ہے   ۔   ہر   دیکھی   سنی   کو   جوں   کا   توں   دہرا   دیتا   ہے   ۔   اپنی   بات   دل   میں   رکھتا   ہے   ۔   بوقتِ   انصاف   سچ   بول   کر   باقی سب   کو   اُلو   بنا   دیتا   ہے   ۔   ۳ :  خواب  :  یہ   ایک   جگہ   ہے   جہاں   پر   جا   کر   کوئی   واپس   نہیں   آتا   ۔  

آسان لفظوں میں:

حکومت کا ای وی ایم مشینز کے بارے میں قوم اور اپوزیشن کو یہ یقین دہانی کرانا کہ بھئی جس کا کنکیشن ہی نہیں کسی اینٹرنیٹ سے "وہ ہیک کیسے ہوسکتا ہے؟" اور اپوزیشن کو یہ نیک مشورہ کہ آپ اب "دھاندلی کے نئے طریقے ڈھونڈھیں" عین ہمارے قومی تشخص کی عکاسی ہے۔ جمہوریت کا ایسا فہم کم ہی قوموں کو نصیب ہوتا ہے۔  سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن ملکوں کی مثالیں دی جارہی ہیں ای وی ایم مشینز کے لیے وہاں پر ایلکٹورل شفافیت کا یہ عالم کیا محض مشینوں کی وجہ سے ہے؟ کیا وہ مشینیں اُنھوں نے لوگوں کی تعلیم و تربیت اور اُن کے استعمال میں شامل حقوق و فرائض سے آگاہ کرکے لگائیں کہ سمارٹ فون یوزیج والے مزدور کو کارپوریٹ مکاریوں پر آگاہ سمجھ کر مسلط کر دیں گئیں؟  ابھی حال ہی میں ایک ڈیجیٹل ایرر کی وجہ سے بنک میں رقم زیادہ ہوگئی۔ چار دن کی تکرار کے بعد جا کر وہ ایرر ڈیٹکیٹ ہوا۔ اور رقم واپس ہوئی۔ جس سے فون پر بات کرو وہ صفائی پیش کرنے میں مصروف ہے۔ یہ کوئی نہیں سوچ رہا کہ شکایت ، اعتراض یا تنقید ہمیشہ دشمنی میں ہی نہیں ہوتی اور یہ کہ اس کو شفافیت سے حل کرنے کے لیئے پہلا قدم اعتراف ہے۔ حکومت اس بات کا اع

On mothers and daughters:

While skimming through some interview data of women who ended up in toxic or abusive relationships and ultimately divorce an interesting finding was that all six women had one thing common in them. All of them had a weak connection with their moms. These moms were full time moms. None of them were going 'out' for work. Another interesting finding was that all interviewees with the exception of one lived in an isolated nuclear family setup.  All six women also complained of an 'emotional unavailability' from their mothers. Upon a thorough investigation of the data it was easy to detect a similar 'lack of self respect' in each mother as a consequence of an isolated set up in some cases, middle class financial constraints in others and pseudo religious beliefs in almost all of them. This got me wondering about so many of my generation born in the eighties. All of us are quite vocal in the criticism of how our parents bought us up but are prone to making the same mi

اسان لفظوں میں:

دیسی مائیں جب آلو قیمہ، گوبھی قیمہ، ماش کی دال یا آلو گوشت پکاتیں ہیں اور برگر بچے رات کو سالن کی بجائے برگر کھا لیتے ہیں تو اگلے دن کا ناشتہ خوب ہوتا ہے کیونکہ ان بچے ُکچھے سالنوں کے پراٹھے خوب بنتے ہیں۔ یہ دیسی طریقہ ہے فوڈ  سسٹینیبلٹی کا۔ ہماری ایمپورٹڈ معیشت مدد کرنا اوربانٹنا تو سکھاتی ہے مگر موجود کا بہترین استعمال کرنے کے لیئے دیسی ماں جیسی اہلیت رزق اور رازق کی قدر سے ہی آتی ہے۔ پراٹھے گول ہوتے ہیں۔ ایک تہہ اوپر، ایک تہہ نیچے۔ بیچ میں سارا بچا کچھا سالن اچھی طرح خشک کرکے ، پیس کے نمک مرچ اور دھنیا ڈال کر لیپ دیا جاتا ہے۔ دونوں تہوں کے درمیان ہلکی آنچ پر جب پراٹھا پکتا ہے تو سالن کی سبزی گُندھے ہوئے آٹے کی متوازن تہوں میں ہلکی آنچ پر نا صرف گرم رہتی ہے بلکہ آٹے کو اپنا خاص ذائقہ دیتی ہے۔ آلو اور گوبھی کا پراٹھا ایک جیسا نہیں ہوتا لیکن لذیذ دونوں ہی لگتے ہیں اگر ناشتے میں کھائیں جائیں۔ باسی کھانا ہو یا روگ۔ دونوں صورتوں میں کارآمد استعمال فائدہ دیتا ہے۔ اگر آپ کے گھر اور دماغ کے فریج میں باسی اشیا کا ہجوم اکٹھا ہونے لگے تو پراٹھے بنانا شروع کردیں۔ ہر سالن کو روٹی میں لپ

On Cue:

Spell bound?  Qazi Shareeh was a a famous tabaai ( those who had the opportunity to sit with the Sahaba of our beloved prophet saw) appointed as the head of the judiciary in the time of Omer (RA). The fact that in the presence  and life of great figures like the Sahaba, Shareeh was appointed as a head judge is of significance. He had the courage to give judgments against the ruler of the time and both Hazrat Omer and Hazrat Ali (RA) agreed to his verdicts in their opponents favour.  This independence ofcourse came from a strong character. Honesty, courage and humbleness at both ends. It was very interesting to follow the confusion of the govt and the conflicting statements of the opposition over the NAB ordinance mess. The way amendments are dished out in our country is so amazing that one wonders weather 'writing the law' has become more important than the implementation?! According to the spokesperson the amendments will bring more 'clarity'. Hoping they can bring mor

ٓآسان لفظوں میں:

 بچپن میں ہمارے اسکول کے باہر  فٹ پاتھ پر سوڈانی حجہ بیٹھا کرتی تھیں۔ اُن کی چکور چادروں پر انواع و اقسام کے رنگ برنگے چسکے بہت ترتیب سے پڑے ہوتے تھے۔ جانے کیوں اسکول کے اندر تین تین کینٹینز کے باوجود چھٹی کے وقت اُن حجہ کی چھابڑی جیسے اپنی طرف کھینچتی تھی ویسے کبھی کینٹین نے نہیں کھینچا۔ شائد ایک ریال میں زیادہ ملنے کا لالچ، اسکول سے فراغت یا شائد چھوٹے چھوٹے رنگین کھلونے ۔گیٹ سے باہر اسکول بسوں کی لائینوں میں بلیلا اور ٓالو کے چپس کی چھابڑی والا بھی ایسے ہی بچوں سے فورا گھر جاتا تھا۔ اسکول اور بس کے درمیان جو دس منٹ کی مکمل آزادی ایک دو ریال جیب میں سنبھالے بچوں کو ہوتی تھی ، اسی سے اِن حجہ اور بلیلا والوں کی روزی جڑ ی ہوتی تھی۔ وہ دس منٹ اختیار اور آزادی کے متوازن استعمال کے لیے اُس وقت ہمیشہ ناکافی ہی لگے۔ ہر شے کو ٹٹول کر یہ دیکھنا بھی عادت سی بن گئی تھی کہ بنا ہوا کہاں کا ہے۔ اُس وقت تائی وان کی ہر شے ایسے ہی بکتی تھی جیسے اب چائنا مال بکتا ہے۔ ترکی کی آدھی سفید اور آدھی بھوری والی چاکلیٹ  بچوں میں سب سے زیادہ مقبول تھی۔باقی تمام چیزیں عموما مقامی ہوتیں۔ ایک آرزو ہمیشہ رہی ک