اسان لفظوں میں:



دیسی مائیں جب آلو قیمہ، گوبھی قیمہ، ماش کی دال یا آلو گوشت پکاتیں ہیں اور برگر بچے رات کو سالن کی بجائے برگر کھا لیتے ہیں تو اگلے دن کا ناشتہ خوب ہوتا ہے کیونکہ ان بچے ُکچھے سالنوں کے پراٹھے خوب بنتے ہیں۔ یہ دیسی طریقہ ہے فوڈ  سسٹینیبلٹی کا۔ ہماری ایمپورٹڈ معیشت مدد کرنا اوربانٹنا تو سکھاتی ہے مگر موجود کا بہترین استعمال کرنے کے لیئے دیسی ماں جیسی اہلیت رزق اور رازق کی قدر سے ہی آتی ہے۔

پراٹھے گول ہوتے ہیں۔ ایک تہہ اوپر، ایک تہہ نیچے۔ بیچ میں سارا بچا کچھا سالن اچھی طرح خشک کرکے ، پیس کے نمک مرچ اور دھنیا ڈال کر لیپ دیا جاتا ہے۔ دونوں تہوں کے درمیان ہلکی آنچ پر جب پراٹھا پکتا ہے تو سالن کی سبزی گُندھے ہوئے آٹے کی متوازن تہوں میں ہلکی آنچ پر نا صرف گرم رہتی ہے بلکہ آٹے کو اپنا خاص ذائقہ دیتی ہے۔ آلو اور گوبھی کا پراٹھا ایک جیسا نہیں ہوتا لیکن لذیذ دونوں ہی لگتے ہیں اگر ناشتے میں کھائیں جائیں۔ باسی کھانا ہو یا روگ۔ دونوں صورتوں میں کارآمد استعمال فائدہ دیتا ہے۔

اگر آپ کے گھر اور دماغ کے فریج میں باسی اشیا کا ہجوم اکٹھا ہونے لگے تو پراٹھے بنانا شروع کردیں۔ ہر سالن کو روٹی میں لپیٹ کرسیکیں تو بالکل مناسب پک جاتا ہے اور ہاضم بھی رہتا ہے۔ گھی دیسی ہو تو تھوڑا استعمال کریں۔ دیسی گھی ہاضم ہوتا ہے مگر محنتی لوگوں کے لئے۔ چینی مال استعمال کرتے ہوئے دل و دماغ دونوں کی حفاظت کے لیئے دیسی ٹوٹکے اپنائیں۔


صائمہ شیر فضل




Comments

Popular posts from this blog

THE MODERN SKEPTIC

Raising strong Muslims.

I am pained :