Posts

Showing posts from August, 2021

Hermeneutics and symbolism

Image
Quran does not limit human experience with metaphor. It uses metaphor to expand his/her intellectual horizon but it uses real stories to limit the interpretation. Similarly the symbolism in Quran is not a mere metaphor. Every symbol has a reality but we are told by Allah ji to not try interpreting them in this world. The wisdom behind this is undoubtedly profound. Human reality cannot be based on allusions to something which no human has ever experienced thus it has to be based on something which is experienceable . Practicable and implementable. Such is the reality of prophetic examples in all three monotheistic religions.  It would be relevant to note here that lived experience is of vital importance but the lived experience of one individual cannot be generalised unless the creator and steerer of  all lived experiences chose that individual. That is why safeguarding the prophetic legacies and believing in the finality of prophet hood is vital today for those who choose to be on the

اماں اور احمد:

Image
"احمد آج تمھاری پسند کا حلوہ بنوایا ہے"۔  اماں نے پیالے سے چمچ بھرتے ہوئے  احمد کے طرف بڑھایا۔ احمد  جلدی میں تھا۔ منہ بناتا ہوا آئینے کی طرف بڑھ گیا۔ "نا اماں بہت میٹھا ہے" "ماں کے کہنے پر چکھ لو بیٹا"۔ "نا اماں آپ سمجھ نہیں رہیںأ چکھا تھا ابھی کچھ دیر پہلے۔ میٹھا زیادہ ڈال دیا ہے آپ کی لاڈلی فیروزہ نے۔ آپ کو پتا ہے میں زیادہ میٹھا نہیں پسند کرتا"۔ اماں خاموش ہوگیئیں۔ احمد نے آئینے میں اماں کو خاموش دیکھا تو دل کو کچھ ندامت سی ہوئی۔ پلٹ کر اماں کی طرف گیا اور جھک کر سر پر پیار کیا۔  "اماں کیا پڑھ رہی ہیں؟" ۔ احمد نے اماں کے مصحف کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ "سورہ جاثیہ!" "کون سی آیت پر ہیں۔ مجھے بھی سنائیں" اماں نے آیت کی تلاوت کی:   وَاٰتَيۡنٰهُمۡ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ​ ۚ فَمَا اخۡتَلَفُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَهُمُ الۡعِلۡمُ ۙ بَغۡيًاۢ بَيۡنَهُمۡ​ؕ اِنَّ رَبَّكَ يَقۡضِىۡ بَيۡنَهُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ فِيۡمَا كَانُوۡا فِيۡهِ يَخۡتَلِفُوۡنَ‏   ﴿45:17﴾ احمد کی آنکھوں میں ایک رنگ آکر گزر گیا۔ اماں اس

اماں کی پوٹلی:

Image
  دیکھو ذرا تم اماں کی پوٹلی: چھوٹی سی گیند چھوٹا سا ربڑ املی کی ڈالی ڈبیہ میں لالی میٹھا سا چسکا مٹی کا مٹکا پپو کی پینسل ننھی کی بالی تانبے کی گھنٹی لال والی بنٹی گڑیا کی گوٹ اور گڈے کا کوٹ اماں کی پوٹلی میں ابا کا نوٹ؟ ننھے منوں کے لئے# ل صایمہ شیر فضل

آسان لفظوں میں:

  آسان   لفظوں   میں :  اُنّیس سو پچاس میں ہٹنگٹن کے بیانیے نے مسلمانوں میں ایک جوابی لہر پیدا کردی۔ ہر طرف بیانیے کا جواب دینا عین اسلام ہوگیا۔ نا صرف یہ اُس بیانیے میں اسلام کو باقی ساری دنیا کا دشمن بنا کر مسلمان خود بھی خوش تھے۔ کچھ عقلمند لوگوں کو یہ بھی سمجھ آئی کہ اس طرح تو ہٹنگٹن کے بیانیے کو مزید جمنے کی جگہ مل رہی ہے مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ہمارے جوشیلے نظریہ دان اُس وقت تک اپنے خوف کو پوری اُمت میں پھیلا چکے تھے اور ہوا وہی جو ہٹنگٹن نے کہا تھا۔ اب پھر بالکل وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ ہمارے نظریہ دانوں کا ہر بیانیہ جوابی ہوتا ہے اور خوفزدہ ہوتا ہے۔ یہ دونوں الفاظ اس لئے کیونکہ توحید کا بیانیہ تو موجود ہے ۔ اُس کے لئے خوفزدہ ہونے کی ضرورت تو ہے ہی نہیں۔ خوف تب لاحق ہوتا ہے جب حقیقت سے زیادہ بیانیوں کو بہتر کرنے پر توجہ ہو۔ ایمان تو اپنا بیانیہ آپ بناتا ہے۔ اور حق کا بیانیہ تو پہلا ہوتا ہے۔ جوابی تو نہیں۔ ہیگل کے فلسفے نے جس طرح ڈاکٹر جیکئل اور مسٹر ہائڈ والے بہروپ کو ہماری معاشرت کا جواز بنایا۔ ہم نے اُس سے بڑھ کر اُس کو اپنا ایمان اور اصول بنا لیا۔ اس وقت بھی تمام نظ

On Cue

  As a pakistani it becomes quite inevitable not to ignore whats happening right next door. I had an Afghani friend as a child and I remember she often dropped in to have breakfast with our family. I loved her confidence and we played a lot. Its been long since I last saw her. We were just five or six then. Fast forward 35 years and I see similiar innocent afghan faces in Pakistan. Refugees crossing over maybe or have already crossed over. As a layman with only text book knowledge of afghan crisis and our relationship with the country I never found them to be as backward as depicted in most western documentaries. They had a society quite similar to that in Syria, Egypt and Lebenon before war and dictatorship ruined all these countries. All that is always discussed about Afghanistan is mostly about who won and who lost. The way we talk about them also just makes them collateral damage. When I read the religious zealots claiming the Taliban take over as victory at last I feel empty and

گول روٹی پدرسرانہ جکڑ اور میری باجی : ( آزادی سپیشل )

Image
  جی   یہ   ایک   بالکل   حقیقی   داستان   ہے۔   اُس   روٹی   کی   جس   کو   عشق   میں   سخت   چوٹ   لگی   جب   اُس   کو   بنانے   والے   پیارے   پیارے   ہاتھ احتجاجی   مارچوں   میں   اُس   کو   بدنام   کرنے   میں   مصروف   ہوگئے۔   روٹی   کا   بیان  :  میرا   کیا   قصور۔   باجی   نے   میرے   ساتھ   اچھا   نہیں   کیا۔   اُن   کے   سارے   مکے   جو   وہ   آفس   سے   مجھے   آکر   مارتی   تھیں   ،   اُن   کا   میں   نے   کبھی برا   نہیں   منایا۔   میرا   ہر   سڑا   سرا   جو   اُن   کے   ابا   شوق   سے   کھاتے   تھے   ۔   میرا   ہر   کچا   کنڈا   جو   اُن   کی   اماں   خاموشی   سے   کھا   لیتی   تھیں۔   کسی بھی   بات   کا   لحاظ   نا   کیا   باجی   نے۔   سچی   بڑی   گہری   چوٹ   کھائی   میں   نے   محبت   میں۔   اس   سے   بہتر   تو   وہ   تندور   والا   ہے   جس   نے     مجھے   اُڑاتے   اُچھالتے   میرے   سارے   کس   بل   نکال   دیے   ۔   اُس   نے   مجھے   ایسے   سارے زمانے   میں   تو   بدنام   نا   کیا   نا۔   آج   میرا   بھی   آپ   سے   سوال   ہے   باجی !  آپ   جب   مجھے   بیلنے   سے   گول  

میاں مٹھو کی اُڑان:

Image
  میاں مٹھو اپنے پنجرے کی خوبصورتی پر بہت نازاں رہتے تھے۔ ایک دن بی مانو وہاں سے گزری تو اُس کو اترا کر کہا    "دیکھو تو! ٓا ہا! میرا محل تو دیکھو"! بی مانو، ذرا بھی موڈ میں نا تھیں ۔ "اخاہ، ہم کیوں دیکھیں؟"،  دم اُٹھائی، کان پُھلائے اور یہ جا وہ جا۔ میاں مٹھو ٹھہرے غصیلے اور پھرتیلے ۔ جھٹ صدا لگانی شروع کر دی :  "مِٹھو چوری کھائے!" "مِٹھو چوری کھائے" مِٹھو چوری کھائے" عالیہ بھاگی بھاگی آئی ۔ اور مِٹھو کو دیکھ کر بولی " مِٹھو چوری کھائے یا مِٹھو لوری گائے؟" مِٹھو تنک کہ بولا "مٹھو چوری کھائے" بس پھر عالیہ نے جلدی سے مٹھو کو چوری ڈالی ۔ چوری چگ کے مٹھو میاں پھول گئے۔ جب مٹھو میاں پھول کر چلتے تو اُن کی دم میں عجب سی اکڑاہٹ سَرک آتی۔ اگلے دن مٹھو میاں اپنے پنجرے میں گشت لگا رہے تھے ۔ سامنے والی کھڑکی میں ایک فاختہ  آبیٹھی۔ بی فاختہ کی چونچ میں دانہ تھا۔ پروں پر پانی کے قطرے چمک رہے تھے۔ بی فاختہ نے بیٹھ کر جو دانہ کھانا شروع کیا تو میاں مٹھو کو بہت برا لگا۔ "دیکھو تو! کیسے میرے محل کے پاس بیٹھیں ہیں۔ نا میرے محل کو

آسان لفظوں میں :

Image
  شطرنج   کی   بساط   میں   ہر   مہرے   کے   پاس   انتخاب   کے   لئے   دو   ہی   گنجائشیں   ہوتی   ہیں۔   سیاہ   یا   سفید۔   غلامی     فرض   اور   ہار   جیت   مقدر !  رب   کائنات   کی   دنیا   شطرنج   کی   بساط   نہیں۔   یہاں   سیاہ   اور   سفید   الگ   نہیں   ایک   دوسرے   میں   پیوسط   ہیں   ۔ حسن   عدل   لازم     اصول ہے   ۔ اطاعت   طرز  ہے۔ طریقت   کے   غلام   انسانوں   کی   بادشاہی   میں  شطرنج کے  مہرے   بن   جاتے   ہیں۔   ہر   قدم   ایک   چال   اور   ہر   حرکت   ایک   وار۔   سیرت   میں   بالکل   شروع   ہی   میں   جس     جگہ   نبی ٌ     کے   چہرہ   مبارک   کا   ذکر   ملتا   ہے۔   اُس   کے   بالکل   قریب   ہی   اُن   کی   چال   کا     ذکر بھی   ملتا ہے۔   اُن   کے   قدم   ایسے   مظبوطی   سے   اُٹھتے   تھے   جیسے     کسی   بلندی   سے   اترتے   انسان   کو   ڈھلان   پر   رکھنے   پڑتے   ہیں۔ اُنٌ   کے   جسم   کا   جھکاؤ   آگے   کی   طرف   ہوتا   تھا۔   جس   نے   کبھی   اسطرح   چلنے   کی   کوشش   کی   ہوگی   اُسے   اندازہ   ہوگا   کہ   اس   حالت   میں انسان   کا   جسم   جلد   تھکاوٹ