Skip to main content

آسان لفظوں میں:

اعلان:مندرجہ ذیل تحرير میں ایک غیر مسلم باجی کی تحقیق کو پسند کیا گیا ہے۔ جن جن کو لادین فکر اور انگریز کی غلامی کی جادوئی جکڑ کا خطرہ لاحق ہے وہ اپنے اپنے بلوں میں منہ دیے رکھیں اور پڑھنے سے اجتناب کریں ۔ خوفزدہ کے ایمان اور عقل دونوں میں موجود خرابی اور زیادہ ہوسکتی ہے۔ 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کالج کے زمانے میں اکثر دوست احباب میں ایک پنجابی مقولہ بولتے،سنتے تھے۔ "سوچی پیا تے بندہ گیا!" 

یہ وہ زمانہ تھا جب ہر کام عموما کم  سوچ کر کئے جاتے تھا اسی لیے شائد کام ہو بھی جاتے تھے۔اس بات کو میرے سوچنے والے نظریاتی بہن بھائیوں اور باجیوں نے ہرگز دل پر نہیں لینا۔ آپ اپنی سوچ پر بالکل تالے نا ڈالیں۔ بس لوگوں اور خیالی دشمنوں کے بارے میں کم سو چیں تو انشااللہ آفاقہ ہوگا۔ایک غیر نظریاتی اور غیر مسلم باجی کی تحقیق  پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ باجی کا نام سوزن ہوئیکسیما ہے۔ اپنی کتاب "ویمن ہو تھنک ٹو مچ" (women who think too much) میں انھوں نے ریسرچ کی دانستہ کوشش سے یہ ثابت کیا کہ  باجیاں جو زیادہ سوچتی ہیں وہ زیادہ تر منفی ہی سوچتی ہیں اور غیر دانستہ طور پر یہ ثابت کیا کہ باجیوں کو یہ مسئلہ بھائی جانوں سے زیادہ ہوتا ہے۔  

مزے کی بات ہے اُن کے ہاں اس کو مسئلہ گردانا جاتا ہے اور باقاعدہ قابل علاج سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اگر کوئی باجی کسی اور باجی یا بھائی جان کو ڈسکس کریں اور بلاوجہ اُن کے بارے میں سوچ سوچ کر اصلاحی پروگرام مرتب کریں تو  اس کو عین ایمان سمجھ لیا جاتا ہے۔ یقین نا آئے تو پاکستان میں موجود تمام متحدہ باجی مومینٹس پر تحقیق کرکے دیکھ لیں۔ ہر وقت کسی کی اصلاح میں مصروفِ غیبت و جاسوسی پائی جائیں گی۔

سوزن باجی نے یہ بھی لکھا کہ جو لوگ زیادہ سوچتے ہیں وہ اپنا بھلا جاننے کے باوجود اُس پر عمل کرنے سے گریز کرتے ہیں۔  کیونکہ اول تو وہ اپنے فیصلے پر شک میں رہتے ہیں پھر اُس کے بعد زیادہ سوچتے سوچتے ہر سوچ کو انتہا برائی پر ہی ختم کرتے ہیں جس وجہ سے ہر عمل بے کار لگنے لگتا ہے اور ڈپریشن ایک عزیز دوست۔

باجی اور باجی کی طلبا نے باقاعدہ لیب میں لوگوں کو بلا کر بلاوجہ کچھ باتوں پر سوچنے کی  دعوت دی پھر کچھ کی سوچ میں مخل ہونے کے اور اُن کو اشتعال دلانے کے بعد سوچ میں تبدیلی کو ماپا۔ خاتون نے بے پناہ تحقیقات کے بعد اس بیماری کی جو وجوہات اور حل لکھے وہ آسان کرکے کچھ یوں ہیں:

۱۔ انسانی دماغ سوچنے کا آلہ ہے۔ اس کا کام ہی سوچنا ہے اور جتنا استعمال ہوگا اور جس طرح استعمال ہوگا اُسی طرح زیادہ بڑھتا چلا جائے گا۔ مختلف انواع کا فکری دسترخوان سوچ کو توازن دے سکتا ہے جبکہ ایک ہی قسم کی خوراک انتہا کا شکار کردیتی ہے۔

۲۔ اخلاقی اور دینی قدروں پر یقین کا فقدان۔ ہم بہترین تو چاہتے ہیں مگر وہ مسقل قدریں جو اُس بہترین کا طریقہ اور ترتیب متعین کریں اُس سے نالاں ہیں۔ وہ خالی جگہ جو اس فقدان سے پیدا ہوتی ہے منفی سوچ کے لئے زرخیز زمین کی مانند ہے۔ مگر ہوئکسیما ابھی بھی مکمل نااُمید نہیں۔ لکھتیں ہیں کہ کوئی نا کوئی قدر ضرور ہوتی ہے جو ہر انسان کے دل میں تمام سیاہی کے نیچے کہیں دبی ہوتی ہے۔ اُس کو بھی پکڑ لیا جائے تو بے کار اور بلاوجہ کے شکوک و شبہات اور خوف سے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔

۳۔ جنون استحقاق۔ ہوئیکسیما کے مطابق کچھ خواتین اپنے آپ کو زیادہ کا حقدار سمجھتی ہیں اس لئے عمومی باتوں پر بھی بلاوجہ زیادہ سوچ سوچ کر اپنی زندگی عذاب کرلیتی ہیں ۔ نا صرف یہ بلکہ اپنی زندگی کے ہر پہلو کو شروع سے بار بار سوچ کر کوئی نا کوئی مسئلہ نکال ہی لیتی ہیں۔ یہ صرف اُن لوگوں کے لئے ہے جن کو بلاوجہ زیادہ سوچنے کا مسئلہ ہے ۔ کچھ لوگوں کے مسائل اور زخم واقعی کافی مشکل ہوتے ہیں بھلانے۔

 پاکستان باجی فاوٗنڈیشن کی باجیوں کی اصلاحی مہمات اس جنون سے مبرا ہیں۔ وہ کبھی بھی بلاوجہ زیادہ نہیں سوچتیں۔ اُن کی سوچ کے پیچھے بامقصد سیاست کارفرما ہوتی ہے۔ 


۴۔ جلدبازی کے حل۔ ہوئیکسیما کے مطابق اس زمانے کے  مرد اور عورتوں دونوں ہی میں ایک جلدبازی ہے اور جن کاموں میں وقت اور مناسب ترتیب درکار ہے اُن کو بھی جلد اور چور راستوں سے حل کرنے کی کوشش بھی بلاوجہ کی سوچ کو زیادہ کرتی ہے۔اس کا علاج بھی وہ صبر اور محنت تجویز کرتیں ہیں۔

۵۔ بیلی بٹن کلچر۔ نہیں یہ بھارتی فلموں کے کلچر کی بات نہیں ہورہی۔ یہ بقول ہوئیکسیما خودآگاہی کے ایسے جنون کا دوسرا نام ہے جس میں "میں" اور "میرا" پھول کر اتنا بڑا ہوجائے کہ کچھ اور نظر ہی نا آئے۔ ہوئیکسیما کے مطابق یہ کچھ باتیں اس زمانے کی تاریخ میں نئی ہیں۔


اس تحرير کا مقصد نیک ہے۔  کسی کے اصل احوال سے مماثلت قطعی طور پر اتفاقیہ نہیں!


صائمہ شیر فضل





Comments

Popular posts from this blog

On Cue:

Spell bound?  Qazi Shareeh was a a famous tabaai ( those who had the opportunity to sit with the Sahaba of our beloved prophet saw) appointed as the head of the judiciary in the time of Omer (RA). The fact that in the presence  and life of great figures like the Sahaba, Shareeh was appointed as a head judge is of significance. He had the courage to give judgments against the ruler of the time and both Hazrat Omer and Hazrat Ali (RA) agreed to his verdicts in their opponents favour.  This independence ofcourse came from a strong character. Honesty, courage and humbleness at both ends. It was very interesting to follow the confusion of the govt and the conflicting statements of the opposition over the NAB ordinance mess. The way amendments are dished out in our country is so amazing that one wonders weather 'writing the law' has become more important than the implementation?! According to the spokesperson the amendments will bring more 'clarity'. Hoping they can bring mor...

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔  اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی ...

On Cue:

 While reading up on discourse and narratives I discovered why individuals and groups decide to resist or adhere to certain discourses. A need to belong, to assert their existence and negate any threats to it seemed to be the most prevalent logic. The feminist discourse on 'women rights' and the conservative discourse on 'duty first' is no different. It's  a draining  debate on the organisation of two truths. Human fitrah adheres to its duty if its right to exist is not threatened. Zooming in, that is why each discourse tries to answer the critical questions of existence and purpose. No one claims complete answers. All take positions.  Positions can be conflicting, conciliatory or reciprocative.  Often enough in different circles I have felt an absence and intolerance to  that very prick that can burst the bubble of a certain discourse.  A conservative religious organisation's banners caught my eye and disturbed me greatly. It stated in Urdu that ...