Skip to main content

ٓآسان لفظوں میں:





۲۰۱۵ میں تُرکی کے ایک ساحل کنارے  دوسالہ بچے کی لاش اوندھے منہ پڑی ہوئی ملی۔ یہ بچہ  شام سے ٓانے والی ایک مہاجر بردار کشتی سے گر کر ڈوب گیا تھا اور پانی کی لہروں نے اسے ساحل سمندر لا پہنچایا۔ اُس بچے کی اوندھی پڑی لاش کی  تصویر کچھ ہی گھنٹوں میں ٓاگ کی طرح سوشل میڈیا پر پھیل گئی۔ ۲۰۱۵ میں میرا چھوٹا بیٹا بھی تقریبا اتنی ہی عمر کا تھا۔ میرے لیے وہ تصویر بہت تکلیف دہ تھی۔ اُس کی قمیض کا رنگ اور اُس کا ننھا سا جسم آنکھیں بند کرنے پر بھی نظروں سے ہٹتا نا تھا۔میرے دل کی یہ کیفیت اُس کے بارے میں  لکھتے ہوئے پھر سے بالکل ویسی ہی ہوگئی ہے۔ یہ تعلق دل کا ہے۔

انسانی نفسيات میں قلب اور معنی  اکژ ایک ہوجاتے ہیں۔ انسان کی خوشی، غمی، فہم اور بصیرت تمام دراصل دل ہی کے معنوں میں شامل ہے۔ تاریخ کے سبق  ضروری تو ہیں لیکن کافی نہیں۔ ہر واقعے کو اگر تاریخ کے پلڑوں میں تولا جائے تو انسان کے لیے عدل کرنا ناممکن ہوجائے۔ ٓافاقی پیمانے تاریخ کی قید سے ٓازاد ہوتے ہیں۔قدرت جب چاہے وقت اور زمانے کی مناسبت سے عدل کرنے والوں کو مناسب ہتھیاروں سے لیس کردیتی ہے۔ اس کے لیے صرف سچ بولنے اور سچ کا سامنا کرنے کی جرات شرط ہے۔

جارڈن پیٹرسن نفسيات کی دنیا کا ایک مشہور نام ہے۔ حال ہی میں اُن کا ایک لیکچر سننے کا اتفاق ہوا۔ لیکچر اُن کی کتاب 

"12 rules for life"(زندگی کے لئے ۱۲ اصول) کا خلاصہ تھا۔ پیٹرسن کی کتاب کا آٹھواں اصول تھا "سچ بولیں یا پھر کم از کم جھوٹ نا بولیں"!

یہ اصول کامیاب اور  بامقصد زندگی  کی اساس ہے۔ 

ُپٰٹرسن نے ایک اور آسانی کی سہل پسند انسانوں کے لیے کہ کم از کم اپنی سچائی تو جی لو۔  دوسروں سے جھوٹ تو بولا ہی جاتا ہے مگر اس سے پہلے انسان خود سے جھوٹ بولتا ہے۔ اور ضدی انسان اگر طاقت ور ہو تو اپنے جھوٹ پر دوسروں کو یقین دلانے کی اسطاعت بھی رکھتا ہے۔ ضدی گروہ بندیاں وجود میں لانے کی اسطاعت بھی رکھتا ہے ۔جہاں سب اپنے اپنے جھوٹ پر بضد ہوجاتے ہیں ۔ ایسے ہی ضدی کو قرآن کریم طاغوت کا نام دیتا ہے۔

ہماری دنیا کے طواغیت آج بضد ہیں کہ اپنے ہی جیسے انسانوں کی زندگیاں بموں سے اُڑا کر۔ معصوم لوگوں کو اُن کی سچائی کی وجہ سے re-educate کرکے معاشرے میں چھوڑا جائے تاکہ جھوٹ کو کوئی جھوٹ کہہ نا پائے۔ اگر کسی معصوم مسلمان خاندان پر صرف اس لیے ٹرک گزار دیا جائے کہ وہ مسلمان تھے تو ساری دنیا مزمت کرکے اپنی ذمہداری سے فارغ ہوجائے اور مسلمانوں کو اسی طرح دنیا بھر میں جس کا جب دل کرے hate-crime کا شکار کرلے ۔ 

سچ تو یہ ہے کہ جب کچھ دن پہلے  ایک اور خبر پڑھی کہ  ایک اور چھوٹے سے دوسالہ بچے کی لاش اُسی طرح ساحل کنارے پڑی ملی جس طرح ۲۰۱۵ میں ملی تھی تو دل کو بہت زیادہ تکلیف ہوئی۔

عدل بھی سچے لوگ ہی قائم کر پاتے ہیں اور ہم مسلمان شائد اب بھی اپنے اپنے جھوٹ سے نکلنے کو تیار نہیں۔


صائمہ شیر فضل



 
 

Comments

Popular posts from this blog

On Cue:

Spell bound?  Qazi Shareeh was a a famous tabaai ( those who had the opportunity to sit with the Sahaba of our beloved prophet saw) appointed as the head of the judiciary in the time of Omer (RA). The fact that in the presence  and life of great figures like the Sahaba, Shareeh was appointed as a head judge is of significance. He had the courage to give judgments against the ruler of the time and both Hazrat Omer and Hazrat Ali (RA) agreed to his verdicts in their opponents favour.  This independence ofcourse came from a strong character. Honesty, courage and humbleness at both ends. It was very interesting to follow the confusion of the govt and the conflicting statements of the opposition over the NAB ordinance mess. The way amendments are dished out in our country is so amazing that one wonders weather 'writing the law' has become more important than the implementation?! According to the spokesperson the amendments will bring more 'clarity'. Hoping they can bring mor...

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔  اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی ...

On Cue:

 While reading up on discourse and narratives I discovered why individuals and groups decide to resist or adhere to certain discourses. A need to belong, to assert their existence and negate any threats to it seemed to be the most prevalent logic. The feminist discourse on 'women rights' and the conservative discourse on 'duty first' is no different. It's  a draining  debate on the organisation of two truths. Human fitrah adheres to its duty if its right to exist is not threatened. Zooming in, that is why each discourse tries to answer the critical questions of existence and purpose. No one claims complete answers. All take positions.  Positions can be conflicting, conciliatory or reciprocative.  Often enough in different circles I have felt an absence and intolerance to  that very prick that can burst the bubble of a certain discourse.  A conservative religious organisation's banners caught my eye and disturbed me greatly. It stated in Urdu that ...