Skip to main content
محبت کے رنگ :

اماں وہ دیکھو! محمد نے بھاگتے ہوئے جب  آسمان کی طرف اشارہ کیا تو حیا نے نظر اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔

نیلے آسمان پر سو دو سو کے قریب چڑیوں کا چھوٹا سا جھنڈ آسمان میں ایسے اُڑ رہا تھا کہ اُن کے چھوٹے چھوٹے پر ایک ہی لمحے میں اُوپر اُٹھتے اور پھر نیچے گرتے۔ ایسی ہم آہنگی تھی اُن کی پرواز میں  ، ایسی مظبوطی اور یقین جیسے کوئی پکڑے ہوئے ہے اُنھیں جیسے وہ کہہ رہی ہوں اے انسانوں کیا تمھیں ہے اتنا یقین ؟
جیسے فخر ہو اُن کو اپنے اس خوبصورت رقص پر !
جیسے کہہ رہیں ہوں،  دیکھو ہمیں!
سوچو ، کیا یہ سب اتفاق ہے؟
اور تم ۔۔۔۔؟
تم خود کیا ہو؟
اے انسان!
کیا تم ہم سے زیادہ بڑی نشانی نہیں؟!
کیا تمھارا خود کا وجود کافی نہیں یقین کے لئے؟
کیا اب بھی ایمان نا لاؤ گے؟
کیا اب بھی اُس کی بڑائی کا اعتراف نا کرو گے؟!
کب تک؟
آخر کب تک؟

حیا کا دل جیسے اُن کے پروں کی حرکت کے ساتھ ساتھ دھڑکنے لگ گیا تھا۔ اُس کا دل ہار چکا تھا اپنے رب کے آگے۔ وہ اپنے رب کی بڑائی اور حکمت کا اعتراف کر چکی تھی۔ وہ بھول چکی تھی کہ وہ کہاں کھڑی ہے۔اُس کا رواں رواں سبحان اللہ پکار رہا تھا۔اُس کا دل محبت کے اُن رنگوں سے رنگ چکا تھا جو نظر کی چکا چاند سے دور کہیں شعور کے خانوں میں فہم کے کینوس پر بھرے جاتے ہیں۔
یہ رنگ خود نظر نہیں آتے مگر ان کی وجہ سے باقی سب کچھ صیح صیح نظر آنے لگ جاتا ہے۔
“اماں کیا دیکھ رہیں، چڑیاں تو کب کی چلیں گئیں”۔ محمد نے جیسے ماں کو جھنجھوڑا۔
حیا نے مسکرا کر محمد کی طرف دیکھا ، اُس کے سر پر پیار کیا اور خاموشی سے چل پڑی۔
اماں کی آنکھیں کیسی عجیب ہیں۔ محمد نے دل میں سوچا۔ ایسا لگتا ہے جیسے اُن کے پیچھے کوئی اور ہی دنیا ہے۔ جہاں اماں روز بہت خوبصورت چیزیں دیکھتی ہیں اور خود سے ہی مسکراتی رہتی ہیں۔ ۔۔۔۔

محبت کے ان رنگوں سے ناواقف محمد انجانے میں اماں کی انگلی پکڑے محبت کے اُس سفر پر نکل چکا تھا جس کے لئے اُسے پیدا کیا گیا تھا۔


صائمہ شیر فضل

Comments

Popular posts from this blog

On Cue:

Spell bound?  Qazi Shareeh was a a famous tabaai ( those who had the opportunity to sit with the Sahaba of our beloved prophet saw) appointed as the head of the judiciary in the time of Omer (RA). The fact that in the presence  and life of great figures like the Sahaba, Shareeh was appointed as a head judge is of significance. He had the courage to give judgments against the ruler of the time and both Hazrat Omer and Hazrat Ali (RA) agreed to his verdicts in their opponents favour.  This independence ofcourse came from a strong character. Honesty, courage and humbleness at both ends. It was very interesting to follow the confusion of the govt and the conflicting statements of the opposition over the NAB ordinance mess. The way amendments are dished out in our country is so amazing that one wonders weather 'writing the law' has become more important than the implementation?! According to the spokesperson the amendments will bring more 'clarity'. Hoping they can bring mor...

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔  اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی ...

On Cue:

 While reading up on discourse and narratives I discovered why individuals and groups decide to resist or adhere to certain discourses. A need to belong, to assert their existence and negate any threats to it seemed to be the most prevalent logic. The feminist discourse on 'women rights' and the conservative discourse on 'duty first' is no different. It's  a draining  debate on the organisation of two truths. Human fitrah adheres to its duty if its right to exist is not threatened. Zooming in, that is why each discourse tries to answer the critical questions of existence and purpose. No one claims complete answers. All take positions.  Positions can be conflicting, conciliatory or reciprocative.  Often enough in different circles I have felt an absence and intolerance to  that very prick that can burst the bubble of a certain discourse.  A conservative religious organisation's banners caught my eye and disturbed me greatly. It stated in Urdu that ...