Skip to main content
عزم!

وَ فَرِحُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ ﴿٪۲۶﴾
اور یہ لوگ مگن ہیں دنیا کی زندگی پر‘ حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے تھوڑے سے فائدے کے۔

اس آیت پر حیا جیسے اٹک سی گئی۔ اس سے آگے اُس سے تلاوت کی ہی نہیں جارہی تھی۔زبان جیسے گنگ ہو گئی تھی۔
اُس نے محمد کی طرف دیکھا جو ابھی مزے سے سو رہا تھا۔

“ماما مجھے آپ نے نہیں اُٹھانا میں خود اُٹھ جاؤں گا” ۔ رات کو محمد حیا کو یہ کہہ کر سویا تھا۔

کھڑکی سے آنے والی دھوپ ایسے جیسے بالکل دبے پاؤں اُس سے بچ کر آہستہ آہستہ اُس کے چہرے پر سرکنے کی کوشش کررہی تھی۔

حیا کو سمجھ تھی کہ محمد نے ابھی  اپنا سفر طے کرنا ہے ۔ اپنے حصے کی آزمائش گزارنی ہے ۔ اُسی صورت اُس کو اس آیت کی حقیقت سمجھ آسکتی تھی۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اُس کو وہ فہم نہیں دے سکتی تھی جو زندگی نے اُس کو دیا تھا۔ کیونکہ اُس کو بھی زندگی نے ہی دینا تھا۔

اپنا مصحف بند کر کے حیا اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ اپنے جوگرز کے تسمے باندھتے باندھتے حیا ماضی میں کھو چکی تھی۔دروازہ کھول کر باہر نکلتے وقت اُس کو یہ بالکل نہیں پتا چلا کہ وہ اپنی روز کی واک پر نہیں بلکہ اپنے مستقبل سے نظریں چرا کر اپنے حال میں ماضی سے کسی مظبوط سہارے کی کھوج میں نکل رہی ہے۔

ٹریک پر درختوں سے چھنتی دھوپ سے بنتے سائے اور نقش بھی اللہ کی تسبیح میں مشغول تھے۔ حیا کی زبان پر بھی خود بخود تسبیح جاری ہوگئی۔

کیسی شان نظر آتی ہے ربِ کریم کی ، اس صبح کی میٹھی روشنی میں۔ چڑیوں کی آوازوں میں۔ گلہریوں کے بھاگنے میں۔ حیا کو یہ سب بہت پیارا لگتا تھا اب !

اپنے رب کی شان جھلکتی نظر آتی تھی اُس کو مگر قدرت شناسی بھی ایک قیمت پر ہی آتی ہے۔

حیا ہمیشہ ایسی نا تھی۔   دنیا کی چکا چوند اُس کو بھی کبھی بھاتی تھی۔ قدرت کے رنگ پھیکے لگتے تھے اُس کو ان نیلی پیلی روشنیوں میں۔ مگر پھر یہ دنیاوی روشنیاں جب بجھ جاتی تھیں تو اندھیرا بہت گہرا ہوجاتا تھا ۔ دل میں ہول اُٹھنے لگتے تھے۔ ایسے ہی ایک اندھیرے سے اُس کو رب نے نکالا تھا۔

اپنی آیتوں کو پھر سے زندہ کیا تھا اُس کے دل میں۔ اُن آیتوں نے قدرت کی پائیداری کا راز کھولا تھا اُس پر۔

اسی سوچ میں ایک درخت پر اُسکی نظر پڑی ۔ وہاں ایک بہت ہی پیارا پیغام سفید سی تختی پر آویزاں تھا۔

“مصیبتوں کا مقابلہ صبر سے کریں اور نعمتوں کی حفاظت شکر سے”

حیا کو جیسے سرا مل گیا۔ اُس کو سمجھ آگئی تھی کہ اب اُس نے محمد کی مدد کیسے کرنی ہے۔ اُس کا ماضی اُس کو صبر سیکھا گیا تھا اور محمد جو اُس کا حال اور مستقبل تھا اُس کی اُسے شکرگذاری کرنی تھی۔ اُس سے منہ نہیں موڑنا تھا۔ اُس سے اُمید نہیں لگانی تھی۔ اُس کی مدد کرنی تھی۔ رب شناسی کے جس سفر پر اُس کو ایک ٹھوکر نے پہنچایا تھا۔ محمد کے لئے اُس کو سیڑھی لگانی تھی۔
تاکہ محمد اندھیروں کی ٹھوکروں سے راستے پر پہنچے کی بجائے اختیار اور فہم کی سیڑھی پر شعوری قدم رکھ سکے۔

روشنی کے اس سفر پر اُس کی حادثاتی آمد نا ہو بلکہ آزمائش کی اس دنیا میں اُس کا ہر قدم شعور اور فہم کا قدم ہو۔

اچانک حیا کو احساس ہوا کہ وہ ٹریک کو کب کا چھوڑ چکی ہے۔ جانے کہاں نکل آئی تھی۔

 ماضی کی پگڈنڈیوں پر نکلنے والے اکثر اپنے رستے بھول جاتے ہیں۔

پاس ہی بیٹھے چوکیدار سے راستہ پوچھ کر وہ جلد ہی واپس ٹریک پر آچُکی تھی۔ چوکیدار نے ہاتھ کا اشارہ سیدھ میں کیا۔

ماضی اور مستقبل دونوں کے تناؤ میں  پھر ایک بار رب کریم نے حال سے ہی سرا پکڑایا تھا حیا کو۔

ابھی سیدھا چلنا تھا اُس کو۔

اب راستہ سیدھا تھا۔

اور عزم ؟

عزم مصمم!



صائمہ شیر فضل

Comments

Popular posts from this blog

On Cue:

Spell bound?  Qazi Shareeh was a a famous tabaai ( those who had the opportunity to sit with the Sahaba of our beloved prophet saw) appointed as the head of the judiciary in the time of Omer (RA). The fact that in the presence  and life of great figures like the Sahaba, Shareeh was appointed as a head judge is of significance. He had the courage to give judgments against the ruler of the time and both Hazrat Omer and Hazrat Ali (RA) agreed to his verdicts in their opponents favour.  This independence ofcourse came from a strong character. Honesty, courage and humbleness at both ends. It was very interesting to follow the confusion of the govt and the conflicting statements of the opposition over the NAB ordinance mess. The way amendments are dished out in our country is so amazing that one wonders weather 'writing the law' has become more important than the implementation?! According to the spokesperson the amendments will bring more 'clarity'. Hoping they can bring mor...

ہلکا پھلکا:

اقبال کے زمانے میں مشینوں کی حکومت کا یہ عالم نا تھا جو ہمارے زمانے میں ہے۔ مرحوم نے نا جانے کیا کچھ جانچ لیا تھا اُس وقت جو ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اب تو مشینوں کی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کل ہی ہمارے آئی فون نے اطلاع دی کہ "آپ کو پتا ہے کہ اگر آپ سڑیس میں ہیں تو قرآن مجید آپ کے سٹریس کو کم کرتا ہے"۔ ہم نے بھی اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے آئی فون کو جوابی اطلاع دی "جی مجھے علم ہے اس فائدے کا اور میں رابطے میں ہوں اپنے رب سے"۔  اس تمام اطلاعاتی مراسلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے فون سے شدید انس اور لگاوؐ محسوس ہوا۔ کسی زمانے میں انسان انسان کا خیر خواہ ہوتا تھا۔ جب سے  انسان نے حکومت اور کاروبار کی خاطر انسانوں کی خریدوفروخت شروع کی تب سے خیر خواہی کے لیے کچھ مشینوں کو آٹو میٹک پر کردیا گیا۔ خریدوفروخت کرنے والوں کو خاص قسم کے انسان چاہیے تھے اور انسانوں کو سہارا۔ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں ہے۔ یہاں پر تو مشین ڈوبتے کو سیدھا ٓاسمان پر ایک ہی چھلانگ میں لے جاتی ہے اور اس تمام سفر میں جو ایک نقطے سے دوسرے تک ڈسپلیسمنٹ ہوتی ہے اُس میں انسان کی ...

On Cue:

 While reading up on discourse and narratives I discovered why individuals and groups decide to resist or adhere to certain discourses. A need to belong, to assert their existence and negate any threats to it seemed to be the most prevalent logic. The feminist discourse on 'women rights' and the conservative discourse on 'duty first' is no different. It's  a draining  debate on the organisation of two truths. Human fitrah adheres to its duty if its right to exist is not threatened. Zooming in, that is why each discourse tries to answer the critical questions of existence and purpose. No one claims complete answers. All take positions.  Positions can be conflicting, conciliatory or reciprocative.  Often enough in different circles I have felt an absence and intolerance to  that very prick that can burst the bubble of a certain discourse.  A conservative religious organisation's banners caught my eye and disturbed me greatly. It stated in Urdu that ...